Maktaba Wahhabi

725 - 738
ترمذی،نسائی،مسند احمد،موطا مالک،مسند شافعی،سنن دارقطنی اور بیہقی میں ثابت ہے۔ امام نووی(المجموع:4/ 372)حافظ ابن حجر(التلخیص الحبیر:1/130)اور ابن القیم(زاد المعاد:1/88۔187 واعلام الموقعین:3/25)نے اس موضوع کی بعض متکلم فیہ احادیث کو بھی صحیح قرار دیا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ جمع صوری کے حق میں ہیں۔[1] جبکہ امیر صنعانی رحمہ اللہ کا رجحان جمع حقیقی کے جواز کی طرف ہے۔[2] جمع صوری: بعض اہل علم نے جمع بین الصلاتین کو ’’جمع حقیقی‘‘ نہیں بلکہ ’’جمع صوری‘‘ قرار دیا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی نماز کو اس کے آخری وقت تک موخر اور دوسری کو اوّل وقت تک مقدم کر کے پڑھا،تا کہ ہر دو نمازیں ہی اپنے وقت پر ہوں۔امام خطابی رحمہ اللہ نے اس بات کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جمع ایک رخصت ہے اور اگر جمع صوری والوں کی بات مان لی جائے تو پھر یہ رخصت نہیں بلکہ نمازی کے لیے بہت مشکل ہو جائے گی کہ ہر نماز کو اُس کے وقت پر اور جمع کر کے پڑھا جائے،کیونکہ نمازوں کے ٹھیک ٹھیک اوّل و آخر اوقات کی پہچان تو اکثر خواص کو نہیں ہوتی،چہ جائیکہ عوام کو ہو سکے۔جمع حقیقی کے رخصت ہونے کی دلیل تو صحیح مسلم میں مذکور ہے: ((اَرَادَ اَنْ لَا یُحْرِجَ اُمَّتَہٗ))[3] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ اپنی امت کو مشقت میں مبتلا نہ کریں۔‘‘ پھر جمع حقیقی پر دلالت کرنے والی کثرت سے احادیث بھی موجود ہیں،جن میں سے چند ایک متن میں مذکور ہوئی ہیں،لہٰذا جمع صوری پر بضد رہنا چہ معنی دارد؟ ظہر و عصر کی طرح ہی نمازِ مغرب و عشا کا معاملہ بھی ہے،جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ سے مروی ہے:
Flag Counter