Maktaba Wahhabi

512 - 738
کی حالت میں ہو۔جب عمداً ایسا ہوگا تو کاہلی اور سُستی نام کو نہیں رہے گی۔جو نمازی کے لیے انتہائی غیر مرغوب چیز ہے اور اس سے خود اللہ تعالیٰ نے منع فرمایاہے۔چنانچہ سورۃ التوبہ میں ارشادِ ربانی ہے: ﴿وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلَاۃَ اِلَّا وَ ھُمْ کُسَالٰی﴾[التوبۃ:54] ’’وہ نماز کو آتے وقت سُستی میں مبتلا ہوتے ہیں۔‘‘ طویل سجدہ: اسی طرح یہ بھی گزر چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع،رکوع کے بعد قومے،دونوں سجدوں اور ان کے درمیان والے وقفے کی مقدار عموماً برابر ہی ہوتی تھی۔البتہ کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود کو بہت ہی طویل کر دیا کرتے تھے۔چونکہ اس مفہوم پر دلالت کرنے والی احادیث بھی رکوع کے ضمن میں ذکر کی جا چکی ہیں،لہٰذا انھیں دہرانا تحصیل حاصل ہے۔البتہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض سجدوں کی طوالت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ کا پتا دینے والے ایک واقعہ کی طرف توجہ دلانا مناسب لگتا ہے۔ سنن نسائی،مستدرک حاکم اور تاریخ دمشق ابنِ عساکر میں مروی ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ ظہر یا عصر کے لیے تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسے حسن یا حسین کو اٹھائے ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور نواسے کواپنے دائیں قدم مبارک کے ساتھ بٹھا لیا اور تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کر دی۔دورانِ نماز ایک سجدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی زیادہ لمبا کر دیا۔اس واقعے کو بیان کرنے والے صحابی رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سجدے سے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر بیٹھا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے ہی میں ہیں۔لہٰذا میں پھر سجدے میں چلا گیا۔جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا:اے اللہ کے رسول!آج اس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سجدہ تو اتنا لمبا کر دیا کہ ہم ڈر گئے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ہو نہ گیا ہو یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترنے لگی ہو۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کُلُّ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ،وَلٰکِنَّ ابْنِیْ اِرْتَحَلَنِیْ فَکَرِہْتُ اَنْ اَعْجِلَہٗ حَتَّی یَقْضِيَ حَاجَتَہٗ))[1] ’’ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔بس میرا بیٹا میری کمر پر سوار ہو گیا تھا تو مجھے اچھا نہیں لگا کہ
Flag Counter