Maktaba Wahhabi

723 - 738
تہجداور چوتھی مطلق نفلی نمازیں ہیں۔[1] شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی موکدہ سنتوں کی نفی(غالب احوال کے بارے میں ہے)اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً یہ سنّتیں اپنے گھر میں ادا کرتے ہوں گے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہیں پاتے ہوں گے۔یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیانِ جواز کے لیے چھوڑ دیتے ہوں گے۔[2] الغرض اس مسئلے میں وسعت ہے۔اگر کوئی شخص صرف مغرب کے تین اور باقی نمازوں کے دو دو فرائض ہی پڑھتا جائے اور فجر کی سنّتیں اور نمازِ وتر ادا کر لے تو کافی ہے،اور اگر کوئی شخص سنتیں اور دوسرے نوافل پڑھ لے تو بھی کوئی حرج نہیں۔[3] دورانِ سفر جمع بین الصلاتین: نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشروع کی ہوئی رخصتوں یا رعایتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نمازی ظہر و عصر کی نمازیں ایک وقت میں اور مغرب و عشا کی دونوں نمازیں بھی ایک وقت میں جمع کر کے پڑھ سکتا ہے،جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود،نسائی،بیہقی اور مسند احمد میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ سے مروی ہے: ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ اَنْ تَزِیْغَ الشَّمْسُ اَخَّرَ الظُّہْرَ اِلٰی وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَیْنَہُمَا ‘ فَاِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ یَّرْتَحِلَ صَلَّی الظُّہْرَ ثُمَّ رَکِبَ))[4] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب زوالِ آفتاب سے پہلے سفر شروع کرتے تو نمازِ ظہر کو عصر کے وقت تک موخر کر دیتے،پھر کہیں رک کر دونوں نمازوں کو جمع کر کے پڑھ لیتے تھے۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر پر روانہ ہونے سے قبل سورج سر سے ڈھل چکا ہوتا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھ کر سوار ہوتے تھے۔‘‘
Flag Counter