Maktaba Wahhabi

154 - 738
’’نَویٰ الشَّیْیَٔ قَصَدَہٗ وَعَزَمَہٗ،وَمِنْہُ النِّیَّۃُ فَاِنَّہَا عَزْمُ الْقَلْبِ وَتَوَجُّہُہُ وَقَصْدُہُ اِلٰی شَیْیٍٔ‘‘[1] ’’ ’’نَوَی الشَّیْیَٔ‘‘ کا معنی کسی چیز کا قصد اور اس کا عزم کرنا ہے،اسی میں سے نیت کا شرعی و اصطلاحی معنی دل کا عزم و توجہ اور کسی چیز کا قصد و ارادہ کرنا ہے۔‘‘ نیت کا شرعی و اصطلاحی معنی بخاری شریف کی شرح ’’فتح الباری‘‘ میں یوں لکھا ہے: ’’وَالشَّرْعُ خَصَّصَہٗ بِالْاِرَادَۃِ الْمُتَوَجِّہَۃِ نَحْوَ الْفِعْلِ لِاِبْتِغَائِ رَضَائِ اللّٰہِ وَامْتِثَالِ حُکْمِہٖ‘‘[2] ’’شریعت نے نیت کے معنی کو کسی کام کے ارادے اور توجہ کے ساتھ خاص کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش اور اس کے حکم کی تعمیل کے لیے ہو۔‘‘ گویا اعمال میں قصد و عزم یا قلبی نیت کا اعتبار ہوگا،زبان سے کہے ہوئے الفاظ،خصوصاً جبکہ وہ قرآن و سنت سے ثابت بھی نہیں بلکہ خودساختہ ہیں،معتبر نہیں ہوں گے۔ کبار ائمہ کی تصریحات: کبار ائمہ کی تصریحات سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ نماز اور روزے وغیرہ کی نیت کو زبان سے ادا کرنا خود ساختہ اور من گھڑت فعل ہے۔ 1۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ: شیخ الاسلام اپنے فتاویٰ کبریٰ میں لکھتے ہیں: ’’ فَاِنَّ الْجَہْرَ بِالنِّیَّۃِ لَا یَجِبُ وَلَا یُسْتَحَبُّ لَا فِیْ مَذْہَبِ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَلَا اَحَدٍ مِّنْ اَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ بَلْ کُلُّہُمْ مُتَّفِقُوْنَ عَلٰی اَنَّہٗ لَا یُشْرَعُ الْجَہْرُ بِالنِّیَّۃِ‘ وَمَنْ جَہَرَ بِالنِّیَّۃِ فَہُوَ مُخْطِیٌٔ مُخَالِفٌ لِلسُّنَّۃِ بِإِتِّفَاقِ اَئِمَّۃِ الدِّیْنِ‘‘[3] ’’جہری(زبان سے)نیت واجب ہے نہ مستحب،نہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب میں اور نہ دوسرے ائمہ اسلام ہی میں سے کسی کے مذہب میں،بلکہ وہ سب اس بات پر متفق ہیں
Flag Counter