Maktaba Wahhabi

388 - 738
5۔ صحیح بخاری،مسند احمد اور سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت عکرمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ((رَأَیْتُ رَجُلاً عِنْدَ الْمَقَامِ یُکَبِّرُ فِیْ کُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ،وَاِذَا قَامَ وَاِذَا وَضَعَ،فَاَخْبَرْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ،قَالَ:اَوَلَیْسَ تِلْکَ صَلاَۃُ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم؟لاَ اُمَّ لَکَ))[1] ’’میں نے مقامِ ابراہیم کے پاس ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا جو اٹھتے،جھکتے،بیٹھتے تکبیر کہتا تھا۔میں نے اس کی خبر حضرت ابن عباس(رضی اللہ عنہما)کو دی تو انھوں نے فرمایا:تیری ماں نہ ہو!کیا یہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ نہیں ہے؟‘‘ 6۔ بخاری شریف کی دوسری روایت میں ہے: ((صَلَّیْتُ خَلْفَ شَیْخٍ بِمَکَّۃَ فَکَبَّرَ ثِنَتَیْنِ وَعِشْرِیْنَ تَکْبِیْرَۃً،فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ:اِنَّہُ اَحْمَقُ!فَقَالَ:ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ،سُنَّۃُ اَبِی الْقَاسِمِ صلی اللّٰه علیہ وسلم))[2] ’’میں نے مکہ مکرمہ میں ایک شیخ کے پیچھے نماز پڑھی تو انھوں نے بائیس تکبیریں کہیں۔میں نے ابن عباس(رضی اللہ عنہما)سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ شخص تو کوئی احمق ہے،تو انھوں نے فرمایا:تیری ماں تجھے گم پائے!یہی تو ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔‘‘ ان سب احادیث کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ دورانِ نماز ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہوتے وقت ہر مرتبہ تکبیر کہی جائے گی،اس طرح چار رکعتوں میں کل بائیس تکبیریں کہی جائیں گی۔اٹھتے بیٹھتے اور ہر حرکت و سکون پر تکبیر کہنے کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ نمازی کو نماز کے آغاز سے لے کر آخر تک یہ احساس رہے کہ اللہ تعالیٰ ہر بڑے سے بہت ہی بڑا اور صاحبِ عظمت و کبریا ہے،لہٰذا اُس کی اطاعت کو چھوڑ کر کسی دوسرے کام میں مشغول رہناٹھیک نہیں،بلکہ اُس کی اطاعت و بندگی میں پورے قلب و قالب کے ساتھ مشغول و مصروف ہونا چاہیے اور اس کی تعظیم کرتے ہوئے اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز جیسی عبادت ادا کرنی چاہیے۔[3] حکمِ تکبیرات: یہاں اس امر کی وضاحت بھی کرتے جائیں کہ تکبیرات میں سے صرف پہلی تکبیر،تکبیر تحریمہ
Flag Counter