Maktaba Wahhabi

258 - 738
تو یہی ہے کہ اس معروف صیغے کے بجائے پہلے ذکر کیے گئے تین انداز ہائے تعوذ میں ہی سے کسی ایک صیغے کو اپنایا جائے،کیونکہ دلائل انہی کے ساتھ ہیں۔ تعوذ کو خاموشی سے پڑھنا: تعوذ کو خاموشی سے پڑھنا ہی مسنون ہے۔کوئی امام ہو یا مقتدی،کوئی اکیلا ہو یا جماعت کے ساتھ اور نماز سرّی قراء ت والی یعنی ظہر و عصر ہو یا جہری قراء ت والی یعنی فجر و مغرب و عشا اور جمعہ،تعوذ بہر صورت بلا آواز ہی پڑھنا ہے۔امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ’’المغنی‘‘ میں لکھا ہے: ’’وَیُسِرُّ الْاِسْتِعَاذَۃَ،وَلَا یَجْہَرُ بِہَا،لَا اَعْلَمُ فِیْہِ خِلَافًا‘‘[1] ’’تعوذ بلاآواز پڑھنا ہے،جہراً نہیں۔اس سلسلے میں کسی کا کوئی اختلاف میرے علم میں نہیں ہے۔‘‘ تعوذکس کس رکعت میں پڑھے؟ اب رہی یہ بات کہ تعوذ یا استعاذہ صرف پہلی رکعت کے شروع میں تکبیر و ثنا کے بعد پڑھنا ہے یا ہر رکعت کے شروع میں بھی پڑھنا ہے؟اس سلسلے میں حضرت حسن بصری،امام ابراہیم نخعی اور امام عطا(رحمہم اللہ)تو ہر رکعت کے شروع میں قراء ت سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ… الخ‘‘ پڑھنے کے قائل اور اسے مستحب سمجھتے ہیں۔ان کا استدلال قرآنی آیت﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾کے عموم سے ہے کہ جب بھی قراء ت کریں تو استعاذہ کرنے کا حکم ہے۔امام ابن سیرین نہ صرف تعوذ بلکہ دعاے استفتاح یا ثنا بھی ہر رکعت کے شروع میں پڑھنے کے قائل تھے۔[2] لیکن جمہور اہلِ علم اور کبار علماء تحقیق نے ان کی اس بات پر موافقت نہیں کی،بلکہ جمہور اہلِ علم کا کہنا ہے کہ ’’أعوذ باللّٰه۔۔۔‘‘ کو صرف پہلی رکعت میں تکبیر و ثنا کے بعد اور قراء ت سے پہلے پڑھنا ہے،بعد والی رکعتوں میں نہیں۔چنانچہ امام رافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے مشہور تو یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف پہلی ہی رکعت کے شروع میں ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھتے تھے اور بقیہ رکعتوں کے سلسلے میں ایسی کوئی مشہور بات نہیں ہے۔
Flag Counter