Maktaba Wahhabi

429 - 738
ذکر ہے،لہٰذا یہ امام اور دوسروں کے لیے بھی مستحب ہے،جیسا کہ رکوع کی تسبیح و غیرہ ہے۔پھر اس لیے بھی کہ نماز کا کوئی حصہ ذکر سے خالی نہیں ہے اور رفع و اعتدال میں اگر یہ دونوں ذکر نہ کیے جائیں تو پھر ان میں سے ایک حالت ذکر سے خالی رہ جاتی ہے۔[1] 12۔سید سابق: دورِ حاضر کے معروف عالم سید سابق نے بھی علامہ عبدالرحمن ہی کی طرح بعض مذکورہ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر استناد کرتے ہوئے تسمیع و تحمید دونوں کو مقتدی کے لیے مستحب لکھا ہے،انھوں نے امام نووی و سیوطی کے کلمات سے تائید حاصل کی ہے اور قائلینِ تحمید کی دلیل کا جواب بھی انہی سے نقل کیا ہے۔اس کی مزید تفصیل ’’فقہ السنہ‘‘(1/ 162،163)میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 13۔علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ: دورِ حاضر کے معروف محدث علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ’’صفۃ صلاۃ النبيّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ میں یہی موقف اختیار کیا ہے کہ مقتدی کو بھی ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہنا چاہیے،کیونکہ اس حدیث میں مقتدی کے اسے نہ کہنے اور امام کے ’’رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ‘‘ کہنے کی دلیل نہیں ہے،بلکہ یہ تو ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ اور ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ کے کہنے کا وقت متعین کرنے سے تعلق رکھتی ہے کہ پہلے امام اس تسمیع سے فارغ ہو لے تو پھر تم تحمید ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ کہو گے۔پھر مقتدی کے ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہنے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امامت کی صورت میں ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ کہا کرتے تھے(اگرچہ اس حدیث میں امام کے لیے اس کے کہنے کی صراحت نہیں ہے)اسی طرح اس بات کی دلیل صحیح بخاری اور دیگر کتب میں وارد اس حدیث کا عموم بھی ہے جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ))[2] ’’تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ یہ حدیث اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مقتدی بھی وہی کہے جو امام کہتا ہے۔[3]
Flag Counter