Maktaba Wahhabi

239 - 738
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ سے مروی تین روایات ذکر کی ہیں۔ان میں سے کسی میں بھی ’’وَجَلَّ ثَنَائُکَ‘‘ کے الفاظ وارد نہیں ہوئے۔اس بات کا اعتراف فقہاے احناف میں سے صاحب ہدایہ وغیرہ نے بھی کیا ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’وَجَلَّ ثَنَائُ کَ لَمْ یُذْکَرْ فِی الْمَشَاہِیْرِ فَلَا یَاْتِیْ فِی الْفَرَائِضِ‘‘[1] ’’اور ’’جَلَّ ثَنَائُ کَ کے الفاظ مشہور روایات میں نہیں ہیں،لہٰذا فرائض میں یہ الفاظ نہ پڑھے جائیں۔‘‘ یہ تو صاحبِ ہدایہ کے الفاظ ہیں۔فرائض میں انھیں پڑھنے سے تو انھوں نے بھی منع کر دیا ہے‘ جبکہ بہتر تو یہ ہوتا کہ وہ ان الفاظ سے مطلق منع کر دیتے کہ نہ تو انھیں فرائض میں پڑھیں اور نہ سنن و نوافل میں،کیونکہ مرفوعاً یہ بات ثابت ہی نہیں۔صاحبِ فتح القدیر شرح ہدایہ شیخ ابن ہمام نے ان الفاظ کے مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی موقوف روایت میں ہونے کا پتا دیاہے،جبکہ وہاں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں۔اگر وہاں ہوں بھی تو وہ موقوف روایت ہے،سنت سے ثابت پھر بھی نہ ہوئے۔ ایسے ہی انھوں نے الفردوس دیلمی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ سے ان کے موقوفاً مروی ہونے کی بات بھی کی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ کتاب بھی غیر معتبر قسم کی کتابوں میں سے ہے،جس کی اکثر احادیث ضعیف اور ناقابلِ استدلال ہیں۔اگر ان اضافی کلمات والی یہ روایت کچھ صحیح بھی ہو تو پھر بھی موقوف ہی ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ثبوت تو پھر بھی نہ ہوا،لہٰذا فرائض اور نوافل دونوں میں ان کا ترک ہی ضروری ہے۔ جنھیں اس اضافے سمیت ثنا حفظ ہے،وہ اپنی اصلاح کر لیں اور ان الفاظ کو اپنے حافظے سے نکال دیں،کیونکہ مشہور کتبِ حدیث میں سے کسی میں یہ ثابت نہیں ہیں۔ ثنا کی فضیلت: اس ثنا کی فضیلت بھی بہت آئی ہے،حتیٰ کہ ایک حدیث میں صحیح سند سے مروی ہے: ((اِنَّ اَحَبَّ الْکَلَامِ اِلَی اللّٰہِ اَنْ یَقُوْلَ الْعَبْدُ:سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ…))[2]
Flag Counter