Maktaba Wahhabi

300 - 738
جسے اختصار کے پیش نظر یہاں ہم نقل نہیں کر رہے۔اس طویل بحث کا نتیجہ یہی ہے کہ رکوع کی رکعت نہ شمار کرنے والوں کا پہلو از روے قوتِ دلیل بھاری ہے۔[1] لہٰذا از روے دلیل اور از روے احتیاط یہی بہتر ہے کہ ایسا موقع آجائے تو اس رکعت کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر پڑھ لیں۔ایسے اختلافی امور میں اکمل(زیادہ کامل)شکل کو اختیار کرنا ہی اَحوط و اولیٰ ہے اور اکمل صورت اس رکعت کا اٹھ کر پڑھنا ہی ہے۔واللّٰہ الموفّق حرفِ ’’ض‘‘ کا اصل مخرج: سورت فاتحہ کے اختتام پر آنے والے الفاظ{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ﴾میں جو حرفِ ’’ض‘‘ ہے،اس کے مخرج کے سلسلے میں کافی لے دے کی گئی ہے۔چنانچہ ہم یہاں تفسیر ستاری(تفسیر سورت فاتحہ جلد کامل)کا متعلقہ مقام(312 تا ص 319)معمولی ترمیم کے ساتھ نقل کر رہے ہیں،تا کہ مسئلے کی اصل حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے۔ دُواد اور ضاد کی تحقیق: عرصہ بعید و مدتِ مدید سے یہ مسئلہ بھی معرکہ آرا بنا ہوا ہے۔ذیل میں اس امر کے دلائل ملاحظہ ہوں کہ یہ لفظ دراصل ’’ضاد‘‘ ہے نہ کہ ’’دواد‘‘،ناظرین اگر خالی الذہن ہو کر تعصب و حمیتِ مذہبی کی عینک اتار کر غور فرمائیں گے تو اِن شاء اللہ ضرور صحیح نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔وباللّٰہ التوفیق مسئلہ دواد اور ضاد۔۔۔دلائل کی روشنی میں: اکثر مفسرین اور علماء فقہ و صرف و نحو اور تجوید کے ماہرینِ قراء ت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’ض‘‘ مشتبہ الصوت ’’ظ‘‘ کا ہے۔ان دونوں میں فرق کرنا مشکل ہے۔اسے ’’دال‘‘ کے مشابہ کسی نے بھی نہیں لکھا۔حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیح مذہب علما کا یہ ہے کہ جو فرق ضاد اور ظا کے درمیان ہو جاتا ہے وہ معاف ہے،اس لیے کہ یہ دونوں قریب المخرج ہیں۔ضاد اوّل حافۂ زبان و اَضراس سے نکلتا ہے۔ظا زبان کی نوک اور اطرافِ ثنایا سے برآمد ہوتی ہے۔دونوں حرو ف اقسامِ مجہورہ و مرخورہ مطبقہ سے ہیں،اس لیے ایک کا دوسرے کی جگہ استعمال جائز ہے۔تفسیر کبیر میں ہے کہ ہمارے نزدیک پسندیدہ امر یہ ہے کہ ضاد کو بہ تلفظ ظا پڑھنا نماز کو باطل نہیں کرتا،کیونکہ مشابہت بیک دیگر
Flag Counter