Maktaba Wahhabi

166 - 738
بدعت حسنہ کے بارے میں مجدد الف ثانی کا موقف: حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اپنے ایک مکتوب گرامی میں فرماتے ہیں: ’’گفتہ اند کہ بدعت ہر دو نوع است حسنہ و سیئہ،حسنہ آں عمل نیک را گویند کہ بعد از زمانِ آنحضور و خلفاے راشدین۔عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ مِنَ الصَّلَوَاتِ اَتَمِّہَا وَمِنَ التَّحِیَّاتِ اَکْمَلِہَا۔پیدا شدہ باشد و رفعِ سنت نمید،و سیئہ آں کہ رافع سنت باشد۔‘‘ ’’کہتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں:حسنہ اور سیئہ۔حسنہ اُس نیک کام کو کہتے ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے دورِ میمون کے بعد ہوا ہو،لیکن اس کی وجہ سے کسی سنت پر زد نہ آتی ہو۔جبکہ سیئہ وہ ہے جس کی وجہ سے کوئی سنت ترک ہوتی ہو۔‘‘ اس سے آگے حضرت مجدد رحمہ اللہ اپنا تحقیقی فیصلہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایں فقیر را ہیچ بدعتے از بدعت ہا حسنہ ونورانیہ مشاہدہ نمی کند و جز ظلمت و کدورت احساس مے نماید‘‘[1] ’’اس فقیر کو تو بدعاتِ حسنہ و نورانیہ کہلائی جانے والی بدعات میں سے کوئی ایک بھی بدعت ایسی نظر نہیں آئی جسے حسنہ کہا جا سکتا ہو۔‘‘ اس سے آگے چل کر موصوف رحمہ اللہ نے رافعِ سنت بدعات کی مثالیں بھی دی ہیں،جنھیں بعض مشائخ نے بدعاتِ حسنہ قرار دیا ہے،جبکہ دراصل وہ ایسی نہیں ہیں،انھی میں سے ایک یہ زبان سے نیت کرنا بھی ہے،جس کے بارے میں انھوں نے کھلے کھلے الفاظ میں لکھ دیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح یا ضعیف حدیث اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی ان کا ثبوت نہیں ملتا،جیسا کہ ان کے اپنے اصل فارسی الفاظ ہیں،جن کا ترجمہ ذکر کیا جا چکا ہے۔ غرض بدعت کے ساتھ ’’حسنہ‘‘ کا لفظ نصِ حدیث کے بھی خلاف ہے اور اہلِ علم و تحقیق بھی بدعت کے ساتھ حسنہ کا لفظ لگانے کو ایک حسین دھوکا یا جھانسہ قرار دیتے ہیں۔ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اسوئہ حسنہ بھی یہی بتاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی اسی کا پتا
Flag Counter