Maktaba Wahhabi

718 - 738
اسی طرح بیہقی میں ایک صحت و ضعف کے مابین مختلف فیہ روایت میں حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم رامہرمز میں نو ماہ مقیم رہے اور قصر کرتے رہے۔[1] امام زیلعی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ میں ان کے علاوہ بھی کئی آثار نقل کیے ہیں۔[2] امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے کہ مسافر اگر اقامت کی نیت نہ رکھتا ہو(بلکہ مجبوراً رکا ہوا ہو)تو وہ قصر کرتا رہے گا،چاہے اس طرح اس کو کئی سال ہی کیوں نہ رکنا پڑے۔[3] حنفیہ،مالکیہ اور حنابلہ کا اس بات پر اتفاق ہے۔البتہ شافعیہ کا کہنا ہے کہ ایسی شکل میں بھی پہلے اٹھارہ دن سے زیادہ قصر نہیں کر سکتا۔[4] لیکن عملِ صحابہ رضی اللہ عنہم اس مسلک کے سراسر خلاف ہے۔ سفر میں مسائلِ امامت و اقتدا: یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر امام و مقتدی دونوں مسافر ہوں تو دونوں ہی قصر کریں گے۔اگر کسی جائز سبب کی بنا پر امام مسافر ہونے کے باوجود بھی پوری نماز پڑھے تو مقتدی کو بھی پوری ہی پڑھ لینی چاہیے۔جیسا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ کی اقتدا میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کا فعل صحیح بخاری شریف اور دیگر کتبِ حدیث میں ثابت ہے،لیکن سفرمیں چار رکعتیں پڑھنے کے خلافِ اولیٰ ہونے کی وجہ سے انھوں نے ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ بھی پڑھا۔ابو داود میں ہے کہ جب ابن مسعود رضی اللہ سے سفر میں چار رکعتیں پڑھنے کا سبب پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: ((الْخِلاَفُ شَرٌّ))’’اختلاف ڈالنا نہایت برا فعل ہے۔‘‘ سنن بیہقی کے الفاظ ہیں: ((اِنِّیْ لَاَکْرَہُ الْخِلَافَ))[5] ’’میں اختلاف کو ناپسند کرتا ہوں۔‘‘ اگر امام مقیم ہو تو مسافر قصر نہیں کرے گا،بلکہ مقیم امام کی طرح پوری نماز ہی ادا کرے گا،چاہے اس کے ساتھ ایک رکعت یا محض سجود و تشہد ہی کیوں نہ پائے،کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ
Flag Counter