Maktaba Wahhabi

303 - 738
یہ ہو گئی ہے کہ ’’ض‘‘ کو بصورت ’’دال‘‘ پڑھتے ہیں اور انھوں نے اس کو دال کا مشتبہ الصوت کر دیا ہے،حالانکہ دال پُر نہیں اور وہ پُر ہے۔سو یہ بات جملہ کتبِ قراء ت و تفسیرو فقہ کے خلاف ہے۔سب کتابوں میں ’’ض‘‘ کا مشتبہ الصوت ہونا ’’ظ‘‘ سے ثابت ہے نہ کہ دال سے۔علامہ وافر التمیز شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ نے تفسیر فتح العزیز میں آیت:{وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ﴾کی تفسیر میں اور دیگر مقام میں ’’ض‘‘ کا مشتبہ الصوت ہونا ’’ظ‘‘ کے ساتھ لکھا ہے اور فتح القدیر وفتاویٰ قاضی خان واتقان وغیرہ فقہ کی بہت سی کتابوں میں اس بات کی تصریح ہے۔ ’’دواد‘‘ کوئی حرف نہیں،یہ بالکل بے اصل اور غلط ہے: تعجب ہے اس زمانے کے لوگوں پر کہ ’’ضاد‘‘ کو ’’دواد‘‘ مثل دال مہملہ کے پڑھتے ہیں،حالانکہ اس میں کسی طرح کی مناسبت و مشابہت نہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے اہل علم کہلانے والے بھی اس میں مبتلا ہیں۔فتویٰ علماء دہلی جس پر مولانا قطب الدین خاں صاحب حنفی کی مہر ثبت ہے،اس میں مولوی کریم اللہ صاحب حنفی نے لکھا ہے: ’’قراء ۃ الضاد مثل الدال غلط غیر معتد بہ فالعاقل یفہم،والغافل یعاند،والحق أحق أن یتبع والباطل حقیق أن یبطل‘‘ ’’ضاد کو مثل دُواد کے پڑھنا بالکل غلط اور غیر معتبر ہے۔پس عقل مند تو سمجھ جاتا ہے اور غافل و جاہل اپنی ضد پر اَڑتا ہے(اور دُواد ہی پڑھتا ہے)۔لائق یہی ہے کہ حق پر چلنا اور باطل کو مٹانا چاہیے۔‘‘ اس پر مفتی صدر الدین صاحب حنفی لکھتے ہیں: ’’وساکنانِ ایں دیار در دال وضاد فرق نمی کنند جاہل اند و بے تمیز‘‘ یعنی اس ملک میں رہنے والے جو دال اور ضاد میں فرق نہیں کرتے،ضاد کو دواد پڑھتے ہیں،جاہل اور بے تمیز ہیں۔فقط العبد المسکین محمد صدر الدین،مرقوم 5 ربیع الثانی 1278ھ۔[1] ’’دواد‘‘ کے متعلق ایک مغالطے کا ازالہ: بعض الناس یہ کہتے ہیں کہ ’’ض‘‘ عربی لفظ ہے اور آج کل کے اہلِ عرب اس کو دواد مثل دال
Flag Counter