Maktaba Wahhabi

371 - 738
سکوت فرمایا اور اس صحابی کو سرزنش نہیں کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکیر نہ کرنا بلکہ{قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾کو ہر سورت سے قبل پڑھنے کی تحسین کرنا اور اسے جنت کی بشارت دینا،اس بات کا ثبوت ہے کہ خلافِ ترتیب قراء ت کرنا بھی جائز ہے اور اسے مکروہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ایسے ہی حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ والی وہ حدیث ہم بیان کر چکے ہیں [1] جس میں ذکر گزرا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات قیام میں تقریباً دس پارے قراء ت فرمائی تھی۔صحیح مسلم و نسائی کی اس حدیث میں سورۃ النساء کا ذکر پہلے اور آلِ عمران کا اس کے بعد آیا ہے،حالانکہ قرآنِ کریم میں پہلے سورت آل عمران ہے اور پھر سورۃ النساء ہے۔لہٰذا یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ترکِ ترتیب مکروہ نہیں ہے،بلکہ یہ جائز و ثابت ہے،البتہ صرف یہ کہا جا سکتاہے کہ ترتیب کا لحاظ رکھنا افضل ہے۔[2] قراء ت کے سلسلے میں بعض آدابِ امامت: قراء ت کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث ایسی بھی ملتی ہیں جن سے امامت کے بعض آداب کا پتا چلتا ہے۔مثلاً یہ کہ اگر امام اس ارادے سے نماز شروع کرے کہ وہ کچھ لمبی قراء ت کرے گا،لیکن دورانِ نماز کوئی بات رونما ہو جائے تو امام کو چاہیے کہ قراء ت چھوٹی کر کے نمازیوں کو جلد فارغ کر دے۔چنانچہ سنن ابو داود اور مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ہے،حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں: ((جَوَّزَ ذَاتَ یَوْمٍ فِی الْفَجْرِ[وَفِیْ أَبِيْ دَاوٗدَ:صَلَّی الصُّبْحَ فَقَرَأَ بِاَقْصَرِ سُوْرَتَیْنِ فِی الْقُرْآنِ]فَقِیْلَ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!لِمَ جَوَّزْتَ؟قَالَ:سَمِعْتُ بُکَائَ صَبِیٍّ فَظَنَنْتُ اَنَّ اُمَّہُ مَعَنَا تُصَلِّیْ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَفْرَغَ لَہُ اُمَّہُ))[3] ’’ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز بہت مختصر پڑھائی(اور سنن ابو داود میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر میں قرآن کریم کی دو سب سے چھوٹی سورتیں پڑھیں)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:اے اللہ کے رسول!آپ نے اتنا اختصار کیوں کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں نے کسی بچے کے رونے کی آواز سنی تو مجھے خیال آیا کہ اس بچے کی ماں
Flag Counter