Maktaba Wahhabi

75 - 738
نہیں پڑھی تھی۔ہم نے یہ سارا واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((قَدْ اَجْزَأَتْ صَلَاتُکُمْ))[1] ’’تمھاری نماز ہو گئی۔‘‘ فی نفسہٖ اس روایت کی سند بھی متکلم فیہ ہے،لیکن یہ امام عطا سے تین اسانید سے مروی ہے،لہٰذا اس شاہد اور اس کی تینوں اسانید کی وجہ سے یہ حدیث حسن درجے کو پہنچ جاتی ہے،لہٰذا یہ قابل حجت و استدلال ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جنگل یا اندھیرے وغیرہ کی شکل میں قبلے کی صحیح جانب معلوم نہ ہونے پر کوشش کر کے ظنِ غالب پر اعتماد کرتے ہوئے کسی بھی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لیں تو نماز ہو جائے گی اور بعد میں قبلے کی صحیح سمت معلوم ہونے پر پہلی نماز کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔[2] سقوطِ وجوب اور اس کی بعض صورتیں: یہ بات قدرے تفصیل سے آپ کے سامنے آ چکی ہے کہ صحت ِ نماز کے لیے استقبالِ قبلہ واجب اور ضروری ہے۔[3] لہٰذا جان بوجھ کر غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نماز صحیح نہیں ہوتی۔کسی جنگل یا پھر بلادِ کفر و شرک یا بادل و اندھیرے میں نمازی گمانِ غالب پر اعتماد کرتے ہوئے کسی ایک طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے تو اجتہاد پر بنیاد رکھ کر پڑھی گئی نماز صحیح ہوگی۔گویا ایسی حالت میں اس سے قبلہ رُو ہونے کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔یہ تب ہے،جب یہ معلوم ہی نہ ہو کہ قبلہ کس طرف ہے۔جبکہ بعض صورتیں اور بھی ہیں جن میں نمازی سے یہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے،جن میں سے چند شکلیں درج ذیل ہیں: 1۔شدید خوف اور مجبوری و بیماری کی حالت میں: آدمی کسی شدید خوف و خطرے،انتہائی مجبوری و لاچاری یا پھر کسی بیماری میں مبتلا ہو اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ قبلہ کس طرف ہے،حسبِ موقع جس طرف بھی ممکن ہو،اسی طرف رُخ کر کے نماز پڑھ لے تو اس کی وہ نماز صحیح ہوگی۔قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے: ﴿فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرۃ:239]
Flag Counter