Maktaba Wahhabi

577 - 738
اگر یہ فرق محض قیاس و رائے کی رُو سے پیش کیا جاتا تو قابلِ التفات و لائقِ اعتنا نہ ہوتا،لیکن ان مسائل میں عموماً ان کی بنیاد کسی نہ کسی نص پر ہے،اس لیے ان کی رعایت کیے بغیر بھی چارہ نہیں۔[1] لہٰذا محض متقدمین علما کی تحقیق پر اڑے رہنے کے بجائے تحقیقاتِ جدیدہ میں وارد نصوصِ صحیحہ سے ثابت شدہ مسائل کو اپنا لینا چاہیے،کیونکہ ائمہ اربعہ سمیت کبار فقہا اور تمام علماء حدیث کا یہی مسلک ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو اسے لے لیا جائے اور اس پر عمل کر لیا جائے،یہ انتظار نہ کیا جائے کہ پہلے اس پر کسی نے عمل کیا ہے یا نہیں؟کیونکہ حدیث و سنت کسی کے عمل سے ثابت نہیں ہوتی،بلکہ اس کے ثبوت پر عمل کیا جاتا ہے اوریہی اصولی قاعدہ ہے۔ مانعین کے دلائل: فقہاے احناف اور ان کے ہمنوا فقہاے مالکیہ قعدئہ اولیٰ میں درود شریف کے قائل نہیں اور ان کا استدلال متعدد احادیث سے ہے۔ پہلی دلیل: صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے مروی ہے: ((۔۔۔ثُمَّ اِنْ کَانَ فِیْ وَسَطِ الصَّلَاۃِ نَہَضَ حِیْنَ یَفْرَغُ مِنْ تَشَہُّدِہٖ۔۔۔))[2] ’’پھراگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم درمیان والے قعدے میں ہوتے تو تشہد پڑھتے ہی کھڑے ہو جاتے تھے۔‘‘ جواب: علامہ سید محب اللہ شاہ صاحب راشدی رحمہ اللہ نے اپنے مقالہ ’’التحقیق المتحلٰی فی ثبوت الصلٰوۃ علی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم في القعدۃ الأولٰی‘‘ میں لکھا ہے ہے کہ اس حدیث سے قعدئہ اولیٰ میں درود شریف نہ پڑھنے پر استدلال کرنا صحیح نہیں،کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ قدیم الاسلام ہیں اور ان کا یہ بیان بھی شروع اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قعدے میں بھی درود شریف پڑھنے کا حکم فرما دیا تھا،جیسا کہ حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو اور حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہم
Flag Counter