Maktaba Wahhabi

437 - 738
’’جب رکوع سے اٹھو تو اپنی کمر کو سیدھا کرو اور اپنا سر اٹھاؤ،یہاں تک کہ تمام ہڈیاں اپنے جوڑوں تک برابر لوٹ جائیں۔‘‘ صحیح بخاری میں ہے کہ ابو حمید رضی اللہ نے کہا: ((رَفَعَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَاسْتَوی حَتّٰی یَعُوْدَ کُلُّ فَقَارٍ مَکَانَہٗ))[1] ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور سیدھے ہو گئے،یہاں تک کہ ریڑھ کی ہر ہڈی اپنی جگہ پر چلی گئی۔‘‘ ان پانچوں اور ایسی ہی دیگر احادیث کے مجموعی مفاد سے کبار علماء احناف سمیت اکثر اہل علم نے ’’قومے میں اطمینان‘‘ کو واجب قرار دیا ہے۔[2] لہٰذا رکوع،قومہ،سجود اور بین السجود کا ’’جھٹکا‘‘ کرنے والوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اُسوئہ حسنہ: خصوصاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوئہ حسنہ سامنے ہو تو پھر اپنی مرضی سے جلدی جلدی ’’ٹکریں ‘‘ مارنے والی ادا انتہائی تعجب خیز ہے۔اس سلسلے میں اسوئہ حسنہ کیا ہے؟تو اس بات کا پتا اس حدیث سے چل جاتا ہے جو ہم سنن ابو داود و نسائی کے حوالے سے ابھی ابھی ذکر کر آئے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قومے کی مقدار اتنی لکھی ہے کہ جتنی دیر میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے۔یہ صحیح ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز تھی،لیکن یقینا یہ بھی صحیح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام فرض نمازوں میں بھی اطمینان کے ساتھ ہی قومے میں ذکر و اذکار کیا کرتے تھے،درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کروا رہے ہوتے تھے،جیسا کہ صحیحین،سنن اربعہ(الا النسائی)،سنن دارمی،مصنف ابو عوانہ اور صحیح ابن خزیمہ کی حدیث میں حضرت براء رضی اللہ فرماتے ہیں: ((کَانَ رُکُوْعُ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَسُجُوْدُہٗ وَبَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ،مَا خَلَا الْقِیَامِ وَالْقُعُوْدِ،قَرِیْبًا مِنَ السَّوَائِ))[3] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع و سجود اور دو سجدوں کا درمیانی وقفہ،نیز قومہ سوائے قیام و قعدہ
Flag Counter