Maktaba Wahhabi

490 - 738
’’اَرْسِلْہُ لِیَسْجُدَ مَعَکَ‘‘[1] ’’اپنے بالوں کو لٹکتا ہوا چھوڑ دو،تا کہ وہ بھی تمھارے ساتھ سجدہ کریں۔‘‘ 3۔ مصنف ابن ابی شیبہ ہی میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ نے بالوں کو باندھ کر کسی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’یَا ابْنَ اَخِیْ!مَثَلُ الَّذِیْ یُصَلِّیْ وَقَدْ عَقَصَ شَعْرَہٗ مَثَلُ الَّذِیْ یُصَلِّیْ وَہُوَ مَکْتُوْفٌ‘‘[2] ’’اے بھتیجے!بالوں کو باندھ کر نماز پڑھنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے،جو اِس حال میں نماز پڑھے کہ اس کے بازو بندھے ہوئے ہوں۔‘‘ اسی مفہوم کا ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ذکر کیا جا چکا ہے۔ ان الفاظِ حدیث و آثار کی بنا پر کپڑوں اور بالوں کو لپیٹنے سمیٹنے سے منع کیا گیا ہے۔امام بخاری اور داود کا رجحان تو اس طرف ہے کہ یہ صرف دورانِ نماز منع ہے،اگر نماز سے پہلے کوئی لپیٹ سمیٹ لے تو حرج نہیں۔جبکہ قاضی عیاض کے بہ قول جمہور اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ نماز میں یا نماز سے پہلے ہر دو مواقع پر ہی یہ منع ہے۔امام ابن المنذر نے امام حسن بصری سے تو یہاں تک نقل کیا ہے کہ اگر نماز کے دوران میں کوئی ایسا کرے تو وہ نماز دہرائے،لیکن جمہور علماء اُمت اس ’’تشدد‘‘ کے قائل نہیں،ان کے نزدیک ایسا نہ کرنا افضل ہے،لیکن اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ وقتِ ضرورت: اگر کسی کا تہبند ذرا چھوٹا ہو اور دورانِ نماز ستر کھل جانے کا خدشہ ہو تو اس کے لیے اپنے کپڑے کو سمیٹنا اور باندھنا جائز ہے،کیونکہ صحیح بخاری ’’کتاب الأذان،باب عقد الثیاب وشدہا ومن ضم إلیہ ثوبہ إذا خاف أن تنکشف عورتہ‘‘ میں،اسی طرح ’’باب إذا کان الثوب ضیقا‘‘ میں ایک حدیث مروی ہے جو صحیح مسلم،سنن ابو داود،مسند احمد اور دیگر کتب میں بھی منقول ہے۔اس میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter