Maktaba Wahhabi

503 - 738
((اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّہٖ وَہُوَ سَاجِدٌ،فَاَکْثِرُوا الدُّعَائَ))[1] ’’بندہ اپنے رب کے قریب تر اُس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو،لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعائیں کیا کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ تو ہر حال میں بندے کے قریب ہوتا ہے،جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾[قٓ:16] ’’ہم بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘ لیکن سجدہ ایک ایسا عمل،ایک ایسی حالت اور ایک ایسی کیفیت و ہیئت ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ بندے کے بہت ہی قریب ہوتا ہے۔ربّ قدوس کی خوشنودی کا دریا موجیں مارتا ہے اور قبولیت گویا دعا کے لیے سراپا انتظار ہوتی ہے۔اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سجدے میں کثرت سے دعا کرو۔ 2 سجدے میں جنت ملنا اور شیطان کا رونا: صحیح مسلم،سنن ابن ماجہ،مسند ابو عوانہ،سنن بیہقی،شرح السنہ اور مسند احمد میں بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے مروی ارشادِ نبوی ہے: ((اِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَۃَ فَسَجَدَ اِعْتَزَلَ الشَّیْطَانُ یَبْکِیْ یَقُوْلُ:یَا وَیْلی،اُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُوْدِ فَسَجَدَ فَلَہُ الْجَنَّۃُ،وَاُمِرْتُ بِالسُّجُوْدِ فَاَبَیْتُ فَلِیَ النَّارُ))[2] ’’جب بنی آدم سجدے والی آیت پڑھے اور سجدہ کرے تو شیطان الگ ہو کر روتا اور کہتا ہے:میں برباد ہو گیا۔ابنِ آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کر لیا اور جنت پائی،جب کہ مجھے سجدے کا حکم ہوا اور میں نے انکار کیا جس سے میرا ٹھکانا جہنم ہو گیا ہے۔‘‘ سجدہ نہ کرنے کے نتیجے میں شیطانِ لعین راندئہ درگاہ ہوا تھا،جبکہ اس کو ادا کرنا بندئہ مومن کے لیے باعثِ نجات اور ذریعہ جنت ہے۔خصوصاً اگر وہ حکم الٰہی اور حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کم از کم نمازِ پنج گانہ میں سجدہ کر کے اس حکم سے عہدہ برآ ہو،لیکن اگر کوئی شخص پنج گانہ فرائض ہی کا تارک ہے تو پھر وہ بھی سجدے کا نافرمان ہے اور اسے اپنا ٹھکانا معلوم ہونا چاہیے۔
Flag Counter