Maktaba Wahhabi

761 - 738
تسبیح کا استعمال؟ اب رہی یہ بات کہ اذکار و وظائف کی گنتی کے لیے جو ’’تسبیح‘‘ استعمال کی جاتی ہے،اس کا استعمال کیسا ہے؟عہد نبوت،دورِ صحابہ اور قرونِ اولیٰ میں اس کی کوئی نظیر ملتی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کسی صحیح[1] حدیث میں ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیح کا استعمال فرمایا ہو،بلکہ ہمیشہ اپنی انگلیوں کے پوروں پر تسبیح کرتے رہے اور اس کی وجہ بھی بیان فرمائی کہ قیامت کے دن جب زبان پر مہر لگا دی جائے گی اور جسم کے دوسرے اعضا ہی بول بول کر انسان کے اچھے اور برے اعمال کی گواہی دیں گے تو اُس وقت انگلیوں کے پورے بھی گواہ بن جائیں گے۔لہٰذا اس طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو فرمایا کہ ’’تسبیح و تہلیل اور تقدیس و توحید کا بیان لازم پکڑو۔‘‘ آخر میں فرمایا: ((وَاعْقِدْنَ بِالْاَنَامِلِ فَاِنَّہُنَّ مَسْؤلَاتٌ مُسْتَنْطَقَاتٌ)) ’’یہ تسبیحات اپنے پوروں پر کرو،کیونکہ انگلیوں کے یہ پورے سوال کیے جائیں گے تو انھیں بولنے کی طاقت دی جائے گی تو یہ بول کر گواہی دیں گے۔‘‘ یہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سنن ابو داود و ترمذی،مسند احمد اور مستدرک حاکم میں مذکور ہے۔اسے امام حاکم اور امام ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے اور امام نووی و ابن حجر نے اس کی تحسین کی ہے۔[2] البتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض کے بارے میں ایسی روایات ملتی ہیں،جنھیں مروّجہ تسبیح کی نظیر قرار دیا گیا ہے۔مثلاً ترمذی شریف میں اُمّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے جبکہ میرے سامنے کھجور کی چار ہزار گٹھلیاں رکھی تھیں،جن پر میں تسبیح کر رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ان پر تم تسبیح کر چکی ہو۔کیا میں تمھیں ایسا وظیفہ نہ بتاؤں جس کا ثواب تمھاری اس ساری تسبیح سے بھی زیادہ ہے؟‘‘ پھر وظیفے کے جو الفاظ بتائے وہ یہ تھے:
Flag Counter