Maktaba Wahhabi

693 - 738
نمازیوں کی طرف منہ پھیرنے کی بعض حکمتیں: مقتدیوں کی طرف منہ کر کے امام کا بیٹھنا اپنے اندر کئی مصلحتیں رکھتا ہے: 1۔ مقتدیوں کو جن امور کی ضرورت ہو،انھیں ان کی تعلیم دی جائے،یعنی درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ کی جائے(جو بہ وقتِ ضرورت اور مناسب مقدارمیں ہو)۔ 2۔ امام اگر مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھا ہوگا تو باہر سے آنے والے نمازی کو معلوم ہو جائے گا کہ جماعت ختم ہو چکی ہے۔ 3۔ مقتدیوں کی طرف پشت کر کے بیٹھے رہنا صرف ’’حق امامت‘‘ کی بنا پر ہے۔جب نماز کی جماعت ختم ہو گئی تو اب امام کا وہ حق ختم ہوا۔جب وہ سبب زائل ہو گیا تو اس کا مقتدیو ں کی طرف پشت کر کے بیٹھے رہنا تکبر و ترفع ہوگا اور مقتدیوں کی طرف منہ کرنا تکبر کے شائبے کو رفع کر دیتا ہے۔[1] سجدئہ سہو: کوئی نماز فرض ہو یا سنت و نفل،چاہے وہ نماز وتر ہو،سوائے نماز جنازہ کے،جس نماز میں بھی نمازی سے کچھ بھول چوک ہو جائے اور وہ بھول بھی ایسی ہو کہ نماز کا کوئی رکن نہ چھوٹا ہو،مثلاً قیام یا رکوع و سجود ہی نہ چھوٹ جائیں کہ جن کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی اور جن کو ادا کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہیں۔بعض دیگر امور میں بھول ہو جائے تو اس کا ازالہ نماز کے آخر میں دو سجدے کرنے سے ہو جاتا ہے،جنھیں ’’سجدئہ سہو‘‘ کہا جاتا ہے۔ نماز کو پوری توجہ سے ادا کرنا اور اِدھر اُدھر کے خیالات سے بچنا باعثِ فضیلت و اجر ہے،لیکن اس کے باوجود بھی انسان سے بھول چوک ممکن ہے۔عام انسان تو کجا،خیر البشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بعض اوقات نماز میں بھول ہو جایا کرتی تھی،جس کا اندازہ صحیح احادیث میں مذکور متعدد واقعات سے ہوتا ہے۔جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود،نسائی،ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِنَّمَا اَ نَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ،اَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ،فَاِذَا نَسِیْتُ فَذَکِّرُوْنِیْ))[2]
Flag Counter