’’اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
ترمذی میں ’’السلام‘‘ کے بجائے ’’سلام‘‘ ہے۔سنن نسائی و ابن ماجہ میں ’’عبدہ و رسولہ‘‘ کے الفاظ ہیں۔مسند احمد و شافعی میں سلام نکرہ ہے اور ’’أن محمداً‘‘ سے پہلے ’’أشہد‘‘ کا لفظ نہیں ہے۔مسند احمد کی ایک روایت میں ’’السلام‘‘ معرف باللام بھی ہے۔نسائی میں بھی سلام نکرہ ہی آیا ہے۔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ صیغہ بھی دراصل حضرت ابن مسعود رضی اللہ والے صیغے کی طرح ہی ہے،لیکن ’’والمُبارکات والصّلواتُ و الطّیِّباتُ‘‘ کے درمیان سے واؤ کو اختصار کے پیش نظر حذف کر دیا گیا ہے،جو لغت میں جائز و معروف ہے۔اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ یہ سب امور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کو سزاوار ہیں اور ان کی حقیقت کسی دوسرے کے لیے صحیح نہیں ہے۔‘‘[1]
3،4 تشہدِ ابن عمر رضی اللہ عنہما:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنن ابو داود،سنن دارقطنی اور معجم طبرانی میں مروی ہے،وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں یہ پڑھا کرتے تھے:
((اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ،اَشْہَدُ اَنَّ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ))[2]
’’ہر قسم کی زبانی،بدنی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔سلامتی و رحمت اور اللہ کی برکتیں نازل ہوں،آپ پر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!ہم پر اور تمام نیک بندوں پر سلامتی ہو۔مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
اس تشہد میں ’’وَبَرَکَاتُہُ‘‘ اور ’’وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ‘‘ کے کلمات کی نسبت بہ ظاہر
|