Maktaba Wahhabi

724 - 738
جمع تاخیر: اس حدیث سے نمازِ ظہر و عصر دونوں کو نماز عصر کے وقت ادا کر لینے کے جواز کا پتا چلتا ہے،جسے ’’جمع تاخیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ جمع تقدیم: ظہر و عصر کو نمازِ ظہر کے وقت جمع کر کے ادا کرنے کا ثبوت بھی کئی احادیث سے ملتا ہے،جسے ’’جمع تقدیم‘‘ کہا جاتا ہے۔چنانچہ سنن بیہقی میں صحیح سند کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ سے مروی ہے: ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِذَا کَانَ فِیْ سَفَرٍ فَزَالَتِ الشَّمْسُ صَلَّی الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِیْعًا ثُمَّ ارْتَحَلَ))[1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور سورج ڈھل جاتا تو ظہر و عصر کو(ظہر کے وقت میں جمع کر کے)اکٹھی ادا فرماتے،پھر سفر شروع کر دیتے تھے۔‘‘ حافظ ابن حجر اور امام شوکانی رضی اللہ عنہ کے بقول اس حدیث کے متعدد طرق اربعین الامام حاکم اور طبرانی اوسط رضی اللہ عنہ میں بھی مذکور ہیں۔امام منذری و علائی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل فن نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔اس موضوع کی احادیث سنن ابو داود،ترمذی اور مسند احمد میں بھی مروی ہیں،جن سے جمع تقدیم کے جواز کا پتا چلتا ہے۔[2] صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ اذان و اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ ظہر پڑھی،پھر اقامت کہی گئی تو نمازِ عصر پڑھی اور ان دونوں کے مابین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی سنن و نوافل نہیں پڑھی: ((وَکَانَ ذٰلِکَ بَعْدَ الزَّوَالِ))[3] ’’اور یہ زوالِ آفتاب کے بعد ہوا۔‘‘ اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کے وقت ظہر و عصر دونوں کو پڑھا اور یہی جمع تقدیم ہے۔دو نمازوں میں جمع تقدیم و تاخیر(جمع حقیقی)صحیح مسلم،سنن ابو داود،
Flag Counter