Maktaba Wahhabi

297 - 738
ایسے ہی اپنی دوسری کتاب ’’السعایۃ‘‘ اور ’’إمام الکلام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اَمَّا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَلاَ یَثْبُتُ النَّہْيُ عَنْ ذٰلِکَ بِسَنَدٍ یُعْتَمَدُ بِہِ‘‘[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قراء تِ فاتحہ خلف الامام کی ممانعت کسی قابل اعتماد سند سے ہر گز ثابت نہیں ہے۔‘‘ مدرکِ رکوع کی رکعت؟ اس موضوع کو ختم کرنے سے پہلے اس سے متعلق ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ شخص جو اُس وقت آکر امام و جماعت سے ملے جب امام رکوع میں جا چکا ہو تو اس مقتدی کی وہ رکعت شمار کی جائے گی یا نہیں؟ مدرکِ رکوع کی رکعت کا مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اور کچھ محدثین کرام و محققین عظام جن میں امام بخاری رحمہ اللہ بھی شامل ہیں اور علماء اہل حدیث کا کہنا ہے کہ اس کی وہ رکعت شمار نہیں ہوگی،کیونکہ اس سے دو اہم اجزاے نماز چھوٹ گئے ہیں: 1۔ قیام،جو بالاتفاق نماز کا رکن ہے۔ 2۔ سورت فاتحہ،جو اس نے امام سے سنی ہے نہ خود ہی پڑھی۔ اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ کسی رکن کے چھوٹ جانے سے نماز نہیں ہوتی،جبکہ رکوع میں ملنے والے کا رکن قیام ہی نہیں بلکہ ساتھ سورت فاتحہ بھی چھوٹ گئی ہے،لہٰذا اس کی وہ رکعت کیسے شمار کی جائے گی؟ 1۔جزء القراء ۃ امام بخاری رحمہ اللہ: امام بخاری رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب ’’جزء القراء ۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جس سے فریضہ قیام و قراء ت فوت ہو جائے،اس کے لیے ان کا مکمل کرنا ضروری ہے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔‘‘[2] ایک جگہ لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر امام کو رکوع جانے سے پہلے کھڑے نہ پا لو تو تمھاری وہ رکعت نہیں ہوگی۔‘‘[3]
Flag Counter