Maktaba Wahhabi

671 - 738
پہلی دلیل: اس بات کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات ہیں،جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو اختیار دیا ہے کہ وہ جو دعا چاہے کرے،جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بڑے اہتمام کے ساتھ تشہد سکھلایا اور آخر میں فرمایا: ((۔۔۔ثُمَّ لْیَتَخَیَّرْ مِنَ الْمَسْأَلَۃِ مَا شَآئَ))’’پھر جو دعا چاہے کر لے۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے: ((ثُمَّ یَدْعُوْ لِنَفْسِہٖ بِمَا بَدَا لَہٗ))’’پھر اپنے لیے جو جی چاہے دعا کر لے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے: ((ثُمَّ لْیَتَخَیَّرْ اَحَدُکُمْ مِنَ الدُّعَائِ اَعْجَبَہٗ اِلَیْہِ فَلْیَدْعُ بِہٖ رَبَّہٗ عَزَّوَجَلَّ)) ’’پھر تم میں سے کسی کو جو دعا اچھی لگے،اپنے پروردگار عزوجل سے وہ دعا مانگے۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے: ((ثُمَّ لْیَتَخَیَّرْ بَعْدُ مِنَ الْکَلاَمِ مَا شَآئَ))[1] ’’اس کے بعد جو دعا چاہے مانگے۔‘‘ ان الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ وہ جو دعا کرنا چاہے کر سکتا ہے،اس میں کسی قسم کی کوئی قید یا شرط ثابت نہیں ہے۔ علامہ زیلعی رحمہ اللہ حنفی کا اعتراف: یہی وجہ ہے کہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ میں بڑے کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہمارے فقہاے احناف میں سے صاحبِ ہدایہ علامہ مرغینانی نے جو یہ شرط لگائی ہے کہ دعا کا قرآن و سنّت کے الفاظ کے مشابہ یعنی ماثور ہونا ضروری ہے،ان کی اس شرط کی کوئی دلیل نہیں ہے۔اس بات سے قبل انھوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی وہ احادیث بھی ذکر کی ہیں،جن سے نمازی کو اپنی مرضی کی دعا اختیار کرنے کا پتا چلتا ہے اورساتھ ہی لکھا ہے کہ ان
Flag Counter