Maktaba Wahhabi

320 - 738
اس پر نکیر نہیں فرمائی۔[1] اگر سورت فاتحہ کفایت کرنے والی نہ ہوتی اور دوسری کوئی سورت واجب القرائۃ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت لازماً اس بات کی وضاحت فرما دیتے،کیوں کہ بوقت ضرورت کسی بات کی توضیح و تبیین نہ کرنا جائز نہیں ہے۔اگر اس پر کوئی اعتراض کیا جا سکتا ہے جس سے کہ یہ استدلال مخدوش ہو جائے تو اس کا جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ یہ بات صرف اسی حدیث میں وارد نہیں،بلکہ اس بات کی تائید کئی دوسری متعدد احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ دوسری دلیل: جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم،مسند حمیدی،سنن کبریٰ،کتاب القراء ۃ اور سنن بیہقی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں: ’’ہر نماز میں قراء ت کی جاتی ہے۔پس جو کچھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنایا ہے،وہ ہم نے تمھیں سنا دیا اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخفی(سراً)رکھا،وہ ہم نے بھی آپ سے مخفی رکھا۔‘‘ آگے فرماتے ہیں: ((وَاِنْ لَمْ تَزِدْ عَلٰی اُمِّ الْقُرْآنِ اَجْزَاَتْ وَاِنْ زِدْتَ فَہُوَ خَیْرٌ))[2] ’’اگر تم سورت فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت نہ بھی پڑھو تو تمھاری نماز ہو جائے گی اور اگر پڑھ لو تو بہترہے۔‘‘ صحیح بخاری کی اس حدیث پر بعض اہل علم نے(جیسے مولانا صفدر وغیرہ،احسن الکلام:2/ 32)موقوف ہونے کا اعتراض کیا ہے،جبکہ علامہ بدر الدین عینی نے پہلے ہی اس اعتراض کو ردّ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث میں جو یہ الفاظ ہیں کہ جو کچھ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنایا اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے مخفی رکھا،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں جو کچھ وارد ہوا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل شدہ ہے۔’’فَیَکُوْنُ لِلْجَمِیْعِ حُکْمُ الرَّفْعِ‘‘[3] لہٰذا ان تمام امور کا حکم مرفوع حدیث والا حکم ہوگا۔علامہ عینی والی یہ بات حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباری‘‘ میں بھی ذکر فرمائی ہے۔[4]
Flag Counter