Maktaba Wahhabi

481 - 738
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوّے کی طرح(سجدوں میں)ٹھونگے مارنے،درندے کی طرح بازو زمین پر بچھانے اور اونٹ کی طرح مسجد میں ایک جگہ مخصوص کر لینے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ 7۔ صحیح مسلم اور سنن بیہقی میں کہنیوں(بازوؤں)کو اٹھا کر رکھنے کا باقاعدہ حکم وارد ہوا ہے۔چنانچہ حضرت براء رضی اللہ سے مروی ارشاد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِذَا سَجَدْتَّ فَضَعْ کَفَّیْکَ وَارْفَعْ مِرْفَقَیْکَ))[1] ’’جب تم سجدہ کرو تو ہتھیلیاں زمین پر رکھو اور کہنیاں زمین سے اٹھا کر رکھو۔‘‘ ان سب احادیث کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ سجدے کے دوران میں نمازی اپنے بازوؤں اور کہنیوں کو زمین سے اٹھا کر رکھے،بچھائے نہیں۔بچھانے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کے پاؤں بچھانے سے تشبیہ دے کر اس کی قباحت واضح فرما دی ہے۔ بوڑھوں اور کمزوروں کے لیے رخصت: سجدے کی مسنون کیفیت کے سلسلے میں جو احادیث ذکر کی جاچکی ہیں،ان کی رو سے بہ وقتِ سجدہ نمازی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ تو اپنی کہنیوں کو گھٹنوں پر رکھے نہ پہلوؤں سے جوڑ کر رکھے اور نہ بازوؤں ہی کو زمین پر بچھائے،بلکہ زمین سے اٹھا کر پہلوؤں اور گھٹنوں سے الگ رکھے۔ظاہر ہے کہ کوئی تندرست اور نوجوان مرد و زن اس کیفیت کو بآسانی اختیار کر سکتے ہیں،البتہ انتہائی بوڑھے اور بیمار و کمزور شخص کے لیے یہ انداز مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں ایسی صورت میں کہنیوں کو گھٹنوں پر لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔ایسے ہی اگر آدمی رات کو طویل رکوع و سجود کرے اور کہنیوں یا بازوؤں کو الگ رکھنے کا متحمل نہ ہو تو اس کے لیے بھی گنجایش ہے کہ کہنیوں کو اپنے گھٹنوں پر ٹیک لگا لے۔چنانچہ سنن ابی داود(کتاب الصلاۃ،باب الرخصۃ فی ذلک للضرورۃ)،سنن بیہقی،سنن ترمذی،مستدرک حاکم اور صحیح ابنِ حبان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے: ((اِشْتَکٰی اَصْحَابُ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِلَی النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم مُشَقَّۃَ السُّجُوْدِ عَلَیْہِمْ اِذَا انْفَرَجُوْا فَقَالَ:اِسْتَعِیِْنُوْا بِالرُّکَبِ))[2]
Flag Counter