Maktaba Wahhabi

520 - 738
الفاظ موجود ہیں،سوائے((عَافِنِیْ))کے۔امام حاکم کی سند بھی متکلم فیہ ہے۔[1] ((اَللّٰہُمَّ))کے بعد اِن ساتوں الفاظ کے مجموعے سے بھی دعا کی جا سکتی ہے اور مختلف روایات میں ثابت کم و بیش الفاظ سے بھی۔ 2۔ سنن ابو داود،ترمذی،ابنِ ماجہ اور صحیح ابنِ خزیمہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ سے مروی حدیث میں ایک دوسری دعا وارد ہوئی ہے۔چنانچہ وہ بیان فرماتے ہیں: ((إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَقُوْلُ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ:رَبِّ اغْفِرْلِیْ رَبِّ اغْفِرْلِیْ))[2] ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان یہ کہا کرتے تھے:’’رَبِّ اغْفِرْلِیْ رَبِّ اغْفِرْلِیْ‘‘ ’’اے اللہ!مجھے بخش دے!اے اللہ مجھے بخش دے!‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسی دُعا کو اختیار کیا ہے۔امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں کہ چاہے تو یہ دعا انہی الفاظ سے تین مرتبہ کر لے اور چاہے تو ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘ کہہ لے،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا دونوں طرح سے وارد ہوئی ہے۔[3] ایک وضاحت: یہاں یہ وضاحت بھی کر دیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعائیں قیام اللیل میں وارد ہوئی ہیں،لیکن امام شافعی،احمد اور اسحاق رحمہم اللہ کے نزدیک انھیں فرض نمازوں میں بھی کہا جا سکتا ہے،جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ان سے نقل کیا ہے۔[4] مشکل الآثار میں وارد تصریح کی رُو سے امام طحاوی بھی ان دعاؤں کی فرضوں میں بھی مشروعیت کے قائل ہیں اور بعض کبار محدثین کے نزدیک بہ نظر صحیح بھی اس کی تائید آتی ہے،کیونکہ نماز میں کوئی ایسا حصہ نہیں جو ذکر سے خالی ہو تو پھر بین السجدتین والا وقفہ کیسے خالی ہوگا؟[5] لہٰذا دو سجدوں کے درمیان والے جلسے میں ذکر کی گئی ان دو دعاؤں میں سے کوئی ایک دعا ضرور کر لینی چاہیے۔
Flag Counter