Maktaba Wahhabi

210 - 738
روایت میں امام مالک رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے،جبکہ دوسری اور مشہور روایت کے مطابق امام مالک کا مسلک ’’ارسال‘‘(ہاتھوں کو لٹکتے چھوڑ دینا)ہے۔[1] سینے پر ہاتھ باندھنے کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں: پہلی دلیل: ناف سے اوپر لیکن سینے کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائلین کی پہلی حدیث یہ ہے جس میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ بیان فرماتے ہیں: ((إِنَّہٗ رَاَی النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَضَعَ یَمِیْنَہٗ عَلٰی شِمَالِہٖ ثُمَّ وَضَعَہُمَا عَلٰی صَدْرِہٖ))[2] ’’انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(پہلے)اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں کے اوپر رکھا،پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سینے پر باندھا۔‘‘ صحیح ابنِ خزیمہ میں مروی ہے: ((صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِہٖ[وَلَفْظ الْبَزار عِنْدَ صَدْرِہٖ]))[3] ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر اپنے سینے پر باندھا۔(اور مسند بزار میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو سینے کے پاس باندھا)‘‘ امیر صنعانی نے ’’سبل السلام‘‘ میں اور امام شوکانی نے ’’نیل الاوطار‘‘ میں لکھا ہے کہ جن کا مسلک سینے سے نیچے ہاتھ باندھنے کا ہے،وہ اس حدیث سے کیسے استدلال کر سکتے ہیں،جبکہ اس حدیث میں تو سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر صراحتاً موجود ہے؟لہٰذا یہ حدیث ناف سے اوپر اور سینے سے نیچے ہاتھ باندھنے کی نہیں بلکہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل ہے۔اکثر شافعی و حنبلی علما و محققین کا عمل اسی کے مطابق ہے۔اسے آپ زیر بحث موضوع میں دوسرا قول بھی کہہ سکتے ہیں۔پہلے قول والوں کے دلائل وہی ہیں جو دوسرے قول والوں کے ہیں اور علماء تحقیق کا عمل بھی اسی کے مطابق ہے۔لہٰذا اس مسئلے میں صرف دو ہی معروف مسلک رہ جاتے ہیں،پہلا سینے پر ہاتھ باندھنا اور دوسرا ناف کے
Flag Counter