Maktaba Wahhabi

217 - 738
سمجھ سکتا ہے،جبکہ اگر تھوڑا سا غور و خوض سے کام لیا جائے تو سینے پر یا کم از کم ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی دلیل تو وہ حدیث بھی بن سکتی ہے جس میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ فرماتے ہیں: ((کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُوْنَ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنٰی عَلٰی ذِرَاعِہِ الْیُسْرٰی فِيْ الصَّلَاۃِ))[1] ’’لوگوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آدمی نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو کی کلائی پر باندھے۔‘‘ اب کوئی صاحب دائیں ہاتھ کو بائیں بازو کی کلائی کے کسی حصے پر باندھ کر دیکھیں۔انھیں فوراً معلوم ہو جائے گا کہ اس کیفیت سے ہاتھ باندھنے والا سینے سے نیچے یا کم از کم ناف سے نیچے باندھ ہی نہیں سکتا۔گویا فکر و تامل کرنے پر صحیح بخاری شریف میں بھی ’’فَـوْقَ السُّـرَّۃِ‘‘ اور ’’عَلَی الصَّدْرِ‘‘ یا ’’عِنْدَ الصَّدْرِ‘‘ ہاتھ باندھنے کی طرف اشارہ موجود ہے۔فَلْیَتَاَمَّلْ۔[2] بعض دیگر دلائل: بعض دیگر امور بھی بطورِ تائید ذکر کیے جا سکتے ہیں،اگرچہ ان کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ اِن احادیث سے مسئلے کی اچھی طرح وضاحت ہو چکی ہے۔ 1۔ ان تائیدی دلائل میں سے ایک دلیل تو تیسویں پارے کی سورۃ الکوثر اور خصوصاً اس کی آیت{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾کی تفسیر ہے۔کیونکہ حضرت علی رضی اللہ کے حوالے سے بعض مفسرین نے یہاں نحر سے مراد سینے پر ہاتھ باندھنا ہی لیا ہے۔[3] لیکن حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ کی طرف اس تفسیر کی نسبت کو صحیح قرار نہیں دیا۔[4] سنن کبریٰ بیہقی(2/ 31)کے مطابق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے،احکام القرآن ابن العربی
Flag Counter