Maktaba Wahhabi

590 - 738
’’ہم امام کے پیچھے ظہر و عصر میں پہلی دو میں سے ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور کوئی سورت اور آخری دو میں صرف سورت فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔‘‘ طبرانی اوسط میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایسے ہی مرفوعاً مروی ہے۔[1] تیسری اور چوتھی رکعت میں جوازِ قراء ت: یہاں اس بات کی وضاحت بھی کرتے جائیں کہ بعض اوقات نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تیسری اور چوتھی رکعت میں بھی سورت فاتحہ کے علاوہ کچھ قراء ت فرما لیا کرتے تھے،جیسا کہ بعض احادیث سے اندازہ ہوتا ہے۔چنانچہ صحیح مسلم،سنن ابو داود،نسائی،ابن خزیمہ اور مسند احمد میں مختلف طرق سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ سے مروی ہے: ((إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَقْرَأُ فِی صَلَاۃِ الظُّہْرِ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُوْلَیَیْنِ(فِیْ کُلِّ رَکْعۃٍ)قَدْرَ ثَلَاثِیْنَِ آیَۃً وَفِی الْاُخْرَیَیْنِ قَدْرَ قِرَائَ ۃِ خَمْسَ عَشَرَۃَ آیَۃً،اَوْ قَالَ:نِصْفَ ذٰلِکَ۔۔۔الخ))[2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو میں سے ہر رکعت میں تیس کے قریب آیات پڑھتے تھے اور آخری دو میں سے ہر رکعت میں اس کا نصف یا پندرہ آیات کے برابر تلاوت کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ پہلی دو رکعتوں میں جو تیس تیس آیات کی قراء ت ہے اور آخری دو میں اس کا نصف یعنی پندرہ پندرہ آیات کی تو سورت فاتحہ کی کل سات ہی آیتیں ہیں۔یہ چیز اس بات کا پتا دیتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری دو رکعتوں میں بھی سورت فاتحہ کے علاوہ کچھ قراء ت فرما لیا کرتے تھے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پندرہ آیات کیسے بنتیں؟یہ حدیث آخری رکعتوں میں بھی قراء ت کے جواز کا پتا دیتی ہے۔جبکہ صحیح مسلم،سنن ابو داود اور مسند احمد ہی میں ایک اور حدیث ہے،جس میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ فرماتے ہیں: ((کُنَّا نَحْزِرُ قِیَامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ فَحَزَرْنَا قِیَامَہٗ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُوْلَیَیْنِ فِی الظُّہْرِ قَدْرَ:الٓمّٓ تَنْزِیْل السَّجْدَۃَ،وَفِی الْاُخْرَیَیْنِ
Flag Counter