Maktaba Wahhabi

729 - 738
((اَرٰی ذٰلِکَ کَانَ فِیْ مَطَرٍ))[1] ’’میرا خیال ہے کہ یہ بارش کی وجہ سے تھا۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف یا بارش کے بغیر ایسا کیوں کیا؟تو انھوں نے فرمایا: ((اَرَادَ اَنْ لَّا یُحْرِجَ اَحَدًا مِنْ اُمَّتِہٖ))[2] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا کوئی شخص مشقت میں مبتلا نہ ہو۔‘‘ ان احادیث میں جو’’ مِنْ غَیْرِ خَوْفٍ وَلاَ سَفَرٍ‘‘ اور ’’مِنْ غَیْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں،ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خو ف و سفر کی طرح ہی بارش میں جمع کر لینا صحابہ کرام رضی اللہ کو معلوم تھا۔یہی وجہ ہے کہ بلا خوف و سفر اور بارش کے بغیر جمع کی وجہ دریافت کی گئی۔موطا امام مالک میں صحیح سند سے مروی ہے کہ امرا و حکام جب بارش کی وجہ سے مغرب و عشا جمع کر کے پڑھتے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔[3] صحیح مسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے(حضر میں)ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو جمع کر کے ادا کرنے کا ذکر کیا تو حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہما نے اس بات کی تصدیق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے چاہی تو انھوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔[4] شدید ضرورت اور مجبوری میں جمع کرنا: مذکورہ بالا سب احادیث و آثار سے بارش وغیرہ میں جمع بین الصلاتین کے جواز کا پتا چلتا ہے۔[5] کسی دوسرے سخت مشقت اور مجبوری کے موقع کا بھی یہی حکم ہے،لیکن شرط یہ ہے کہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے۔مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ میں بعض تفصیلات میں اختلافِ رائے سے قطع نظر مجموعی طور پر جمع کے جواز پر اتفاق ہے۔علماء حدیث کی ایک جماعت بھی اس کی قائل ہے،البتہ احناف بارش میں جمع کے قائل نہیں۔بارش میں جمع بین الصلاتین کے بارے میں ہمارا ایک تفصیلی مضمون متعدد جماعتی پرچوں میں عرصہ ہوا چھپ چکا ہے۔[6] بیماری میں جمع کرنا: بیماری کی حالت میں دو نمازوں کو جمع کرنے کا ذکر تو حدیث میں نہیں ملتا،لیکن امام احمد،امام مالک رضی اللہ عنہ اور کئی دیگر کبار علما و فقہا کے نزدیک بیماری میں بھی دو نمازوں کو جمع کر لینا جائز ہے،کیونکہ بیمار کو ہر نماز اپنے وقت پر ادا کرنے میں جو مشقت اور دقت پیش آتی ہے،وہ
Flag Counter