Maktaba Wahhabi

222 - 738
علماء احناف کے اس اصول کی رُو سے ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ والی یہ حدیث تو منسوخ ہوئی اور اگر اسے منسوخ نہ بھی مانیں تو یہ حضرت علی رضی اللہ کا اپنا ذاتی عمل ہے،جس سے کسی مرفوع صحیح حدیث کو رد نہیں کیا جا سکتا۔پھر اس اثر میں ’’فَوْقَ السُّرَّۃِ‘‘ کا لفظ ہے جو ناف کے اوپر اور سینے کے نیچے والے سارے حصے کے لیے بولا جا سکتا ہے لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہا ناف سے کافی اوپر سینے کے پاس ہاتھ باندھے ہوئے ہوں،لہٰذا یہ سینے پر نہیں تو سینے کے پاس ہاتھ باندھنے والوں کی دلیل ہے نہ کہ تحت السرۃ یا زیر ناف ہاتھ باندھنے کی۔[1] دوسری دلیل اور اس کا تجزیہ: زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کی دوسری دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ((اَخْذُ الْاَکُفِّ عَلَی الْاَکُفِّ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ))[2] ’’نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر زیر ناف رکھنا۔‘‘ اس روایت کی سند میں بھی وہ راوی عبدالرحمن بن اسحاق کوفی موجود ہے جو ’’تـحتَ السُّرۃ‘‘ یا زیر ناف ہاتھ باندھنے کا پتا دینے والی پہلی حدیث میں ہے جس کے بارے میں محدثین کرام کے تنقیدی اقوال اور فیصلے ہم پہلی حدیث کے ضمن میں ذکر کر چکے ہیں،لہٰذا اس جرح و تنقیدکو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے اور اس کو روایت کر کے امام ابو داود نے بھی اپنی سنن میں امام احمد بن حنبل کا قول نقل کر دیا ہے جس میں انھوں نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے،لہٰذا یہ روایت بھی ناقابل استدلال،ناقابلِ استشہاد اور ناقابل اعتبار ہوئی۔ تیسری دلیل۔۔۔بلا سند: زیر ناف ہاتھ باندھنے کی تیسری دلیل وہ روایت ہے جسے علامہ ابن حزم نے المحلی میں حضرت اَنس رضی اللہ سے بیان کیا ہے،جس میں مروی ہے: ((ثـلَاَثٌ مِّنْ اَخْلَاقِ النُّبُوَّۃِ:تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ،وَتَاْخِیْرُ السُّحُوْرِ،وَوَضْعُ الْیَدِ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی فِيْ الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ))[3]
Flag Counter