Maktaba Wahhabi

405 - 738
4۔ صحیح ابن خزیمہ و ابن حبان،سنن دارقطنی و بیہقی اور مستدرک حاکم میں وائل بن حجر رضی اللہ سے مروی ہے: ((إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ اِذَا رَکَعَ فَرَّجَ اَصَابِعَہٗ))[1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو اپنی انگلیوں کو کھلا رکھتے تھے۔‘‘ 5۔ سنن ابو داود،ترمذی،دارمی،بیہقی اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ سے مروی ’’کیفیت نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ والی حدیث میں مذکور ہے: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم رَکَعَ فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ کَاَنَّہٗ قَابِضٌ عَلَیْہِمَا وَوَتَّرَ یَدَیْہِ فَنَحَّاہُمَا عَنْ جَنْبَیْہِ))[2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو یوں اپنے گھٹنوں پر رکھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کو پکڑے ہوئے ہیں،اور اپنے دونوں بازوؤں کو پہلوؤں سے الگ رکھا۔‘‘ اور حضرت عقبہ والی سابقہ حدیث میں بھی ابن خزیمہ کے الفاظ ہیں: ((وَوَضَعَ رَاحَتَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَجَعَلَ اَصَابِعَہٗ اَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ ثُمَّ جَافٰی بِمِرْفَقَیْہِ))[3] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھیں اور انگلیوں کو گھٹنوں سے نیچے کی طرف کر دیا اور کہنیوں کو پہلوؤں سے الگ رکھا۔‘‘ 6۔ صحیح بخاری و مسلم اور محلّٰی ابن حزم میں مروی ہے: ((وَاِذَا رَکَعَ اَمْکَنَ یَدَیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ[کَاَنَّہٗ قَابِضٌ عَلَیْہِمَا]ثُمَّ ہَصَرَ ظَہْرَہٗ))[4] ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو ہتھیلیوں کو اچھی طرح گھٹنوں پر یوں رکھتے(کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کو پکڑے ہوئے ہوں)اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کو بالکل سیدھا کر لیتے۔‘‘ ان احادیث سے رکوع کی کیفیت کے سلسلے میں یہ بات تو واضح ہو گئی کہ ہاتھوں کو گھٹنوں پر مضبوطی سے پکڑ کر یوں رکھا جائے کہ انگلیاں کھلی رہیں،بازو پہلوؤں سے دُور ہوں اور کہنیاں قدرے باہر کی طرف رہیں۔کہنیوں کو باہر کی جانب رکھنے کے سلسلے میں اس بات کو ہر گز نظر انداز نہ کیا جائے کہ جب کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو اعتدال کی حدود میں رہتے ہوئے انھیں جتنا چاہے کھول لے،لیکن اگر نماز باجماعت اداکر رہا ہو تو اپنے دائیں بائیں والے نمازیوں اور جگہ کی رعایت رکھنا ضروری ہے۔ایسی حالت میں اتنی کہنیاں نہ کھول لے کہ دوسروں کو رکوع میں اس سے تکلیف پہنچے۔ رکوع میں کمر کی کیفیت: یہ تو تھا ہاتھوں،بازوؤں،کہنیوں اور گھٹنوں کی حالت،اب رہی یہ بات کہ رکوع کی حالت میں کمر اور سر کی کیا کیفیت ہونی چاہیے؟ 1۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ’’باب استواء الظہر في الرکوع‘‘ یعنی رکوع میں کمر کو برابر اور سیدھا رکھنے کے بیان میں حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ کا ارشاد نقل کیا ہے جس میں وہ اپنے دیگر ساتھیوں کو کہتے ہیں: ((رَکَعَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ثُمَّ ہَصَرَ ظَہْرَہٗ))[5] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور اپنی کمر مبارک کو پوری طرح سیدھا جھکا دیا۔‘‘ 2۔ صحیح بخاری اور سنن بیہقی میں مروی ہے: ((۔۔۔کَانَ اِذَا رَکَعَ بَسَطَ ظَہْرَہٗ وَسَوَّاہُ))[6] ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو کمر کو پھیلا کر خوب سیدھا کر لیتے تھے۔‘‘ 3۔ اس کی مزید وضاحت سنن ابن ماجہ،معجم طبرانی صغیر و کبیر اور زوائد مسند امام احمد کے ان الفاظ سے ہو جاتی ہے جن میں حضرت علی،ابن عباس،انس،وابصہ بن معبد،ابو برزہ اسلمی اور عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں: ((حَتّٰی لَوْ صُبَّ عَلَیْہِ الْمَائُ لَاسْتَقَرَّ))[7]
Flag Counter