Maktaba Wahhabi

219 - 738
’’وَوَضْعُ الْیَمِیْنِ عَلَی الشِّمَالِ فَوْقَ السُّرَّۃِ‘‘[1] ’’اور دائیں ہاتھ کو بائیں پر ناف سے اوپر باندھنا سنت ہے۔‘‘ 4 معروف ماہرِ لغت اور عالم دین،صاحب القاموس المحیط علامہ فیروز آبادی نے بھی اپنی کتاب سفرِ سعادت(مترجم اردو،ص:23)میں صحیح ابنِ خزیمہ والی حدیث کے حوالے سے سینے پر ہاتھ باندھنے ہی کو اختیار فرمایا ہے۔ 5 صحیحین اور سننِ اربعہ کے محشی شیخ ابوالحسن حنفی سندھی سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث و سنت پر عمل کیا کرتے تھے اور ’’تراجم الشیوخ‘‘ میں شیخ محمد عابد سندھی نے موصوف کے حالات میں ایک واقعہ لکھا ہے جس کے سلسلے میں انھیں قید و بند کی صعوبت میں مبتلا ہونا پڑا،جسے انھوں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا،جیسا کہ تفصیلی واقعہ ذکر کیا جا چکا ہے۔ غرض یہ تو دلائل اور عمل ہے ناف سے اوپر اور سینے کے پاس ہی نیچے کی جانب یا سینے پر ہاتھ باندھنے والوں کا،جبکہ یہ بات بھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ جن ائمہ و فقہا نے ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کا کہا ہے،انھوں نے دلیل کے طور پر جو احادیث پیش کی ہیں،وہ وہی ہیں جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اور متعدد احادیث پر مشتمل دلائل کی رو سے یہی راجح بھی ہے۔وَاللّٰہُ المُوَفِّقُ! زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کے دلائل: اب آئیے اس سلسلے میں دوسرا مسلک رکھنے والوں کے دلائل کا بھی مطالعہ کریں۔یہ دوسرا مسلک احناف کا ہے جو زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کے قائل و فاعل ہیں اور ان کا استدلال بھی بعض احادیث سے ہے: پہلی حدیث اور اس کی استنادی حیثیت: ان کی پہلی اور اہم دلیل وہ حدیث ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ فرماتے ہیں: ((اِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّلَاۃِ وَضْعُ الْاَکُفِّ عَلَی الْاَکُفِّ تَحْتَ السُّرَّۃِ))[2]
Flag Counter