Maktaba Wahhabi

129 - 738
دیا ہے،جس کی تفصیل ہم ’’چارپائی کے سامنے نماز‘‘ کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں۔البتہ موضوع کی مناسبت سے یہاں اتنی بات دہرائے جاتے ہیں کہ امام خطابی نے ’’معالم السنن‘‘ میں نقل کیا ہے کہ امام شافعی و احمد رضی اللہ عنہ باتیں کرنے والے شخص کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیتے تھے۔ابو عمر رحمہ اللہ کسی باتیں کرتے شخص کے سامنے نماز نہیں پڑھتے تھے،سوائے جمعہ کے دن خطیب کے سامنے پڑھنے کے۔[1] امام بغوی رحمہ اللہ نے بھی ’’شرح السنہ‘‘ میں لکھا ہے کہ اس بات کی ممانعت بیان کی جاتی ہے کہ دو آدمی باتیں کر رہے ہوں اور ان کے مابین(سامنے)کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو۔[2] اب رہی وہ حدیث جو مسند بزار میں حضرت علی رضی اللہ سے مروی ہے،جس میں منقول ہے: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم رَاٰی رَجُلًا یُصَلِّیْ اِلٰی رَجُلٍ فَاَمَرَہٗ اَنْ یُعِیْدَ الصَّلَاۃَ))[3] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کسی آدمی کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھ رہا تھا تو آپ ا نے اُس شخص کو حکم فرمایا کہ وہ اپنی نماز دوبارہ پڑھے۔‘‘ اس حدیث میں کسی آدمی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی مطلق ممانعت آئی ہے،لیکن یہ حدیث ضعیف اور ناقابل استدلال ہے،کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالاعلیٰ تغلبی ہے جسے علامہ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں ضعیف لکھا ہے۔[4] مکہ اور مسجد حرام میں سُترہ: مسائلِ سُترہ کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ یہ سُترہ نمازی کا قبلہ ہوتا ہے،لہٰذا مکہ مکرمہ کے اندر تو کعبہ شریف کے سوا کوئی قبلہ نہیں ہو سکتا،لہٰذا مکہ مکرمہ میں سُترے کی ضرورت نہیں ہے،حالانکہ تفصیلات ذکر کی جا چکی ہیں،جن سے اس نظریے کی تردید ہوتی ہے کہ سترے کو قبلہ نہ سمجھا جائے۔بلکہ سترہ دراصل آگے سے کسی کے گزرنے سے بچاؤ کا طریقہ ہے نہ کہ قبلہ ہوتا ہے۔علاوہ ازیں مکہ مکرمہ کے اندر خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سُترہ رکھ کر نماز پڑھنا ثابت ہے،جیسا کہ صحیح بخاری شریف ’’بَابُ الـسُّتْرَۃِ بِمَکَّۃَ وَغَیْرِہَا‘‘ میں،ایسے ہی دوسرے دس
Flag Counter