Maktaba Wahhabi

229 - 738
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ سب معلومات شیخ محمد حیات سندھی نے بھی اپنے رسالے ’’فتح الغفور‘‘ میں جمع کی ہیں اور آخر میں لکھا ہے کہ یہ تمام امور زیرِ ناف والے اضافے کے غیر صحیح ہونے کا پتا دیتے ہیں۔[1] ابراہیم اور ملا علی قاری نے بھی یہ اضافہ کہیں نقل نہیں کیا۔[2] تحقیق جدید: زیر ناف ہاتھ باندھنے کے دلائل میں سے ایک حدیث مصنف ابن ابی شیبہ سے پیش کی جاتی ہے،جس کے آخر میں ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ یعنی زیر ناف کے دو لفظ ایسے ہیں جو دراصل حدیث کے نہیں،بلکہ کاتب کی غلطی کانتیجہ ہیں(یا کسی کی ہوشیاری کا پھل ہے)اس بات کی تائید میں ہم نے دس بارہ کبار علما و فقہاے احناف کے اقوال یا انداز ذکر کیے ہیں۔ان سب کا تعلق تو مخطوات یا قلمی نسخوں کے بارے میں ہو سکتا ہے،لیکن اب جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض ایڈیشن چھپ چکے ہیں،تو صورتِ حال یہ ہے کہ بعض اڈیشنوں میں اب بھی ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔البتہ ایک اڈیشن میں یہ الفاظ بھی چھاپ دیے گئے ہیں۔چنانچہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور(20 جمادی الثانیہ 1407ھ بہ مطابق 20 فروری 1987ء)میں ایک فاضل محقق جناب مولانا ارشاد الحق صاحب اثری حفظہ اللہ نے ’’خدمتِ حدیث کے پردے میں تحریفِ حدیث‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا ہے جس میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی پہلی جلد سب سے پہلے ابوالکلام اکیڈمی حیدر آباد(انڈیا)نے 1386ھ بمطابق 1966ء میں شائع کی تھی اور پھر دوسری اور تیسری جلدوں کی طباعت کے بعد یہ کام رک گیا اور پھر اس عظیم الشان کام کی تکمیل الدار السلفیہ بمبئی میں مولانا مختار احمد ندویd کی زیر نگرانی ہوئی جو پندرہ جلدوں کی شکل میں ہے۔دوسری طرف مولانا مفتی محمد شفیع کے دادا مولانا نور محمد نے پیر آف جھنڈا(سندھ)میں موجود مصنف ابن ابی شیبہ کے قلمی نسخے کی مدد سے اسے سولہ جلدوں میں اپنے ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی کے زیر اہتمام شائع کیا اور اس تیسرے ایڈیشن کی جلد اول(ص:390)میں ’’بَابُ وَضْعِ الْیَدَیْنِ عَلَی الشِّمَال‘‘ کے تحت حضرت وائل بن حجر رضی اللہ والی اس حدیث کے آخر میں(بڑھی ڈھٹائی کے ساتھ)’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘(زیر ناف)کے الفاظ کا اضافہ بھی شائع کر دیا،جبکہ ابوالکلام اکیڈمی حیدر آباد اور الدار السلفیہ بمبئی
Flag Counter