Maktaba Wahhabi

225 - 738
میں سے اسے صحیح ماننے والے بھی ہیں۔چنانچہ عہد قدیم میں حافظ قاسم بن قطلوبغا نے اس اضافے کی نشان دہی کی تھی جو ظاہر ہے کہ قلمی نسخے میں تھی۔انھوں نے اس کا ذکر ’’تخریج أحادیث الاختیار شرح المختار‘‘ میں کیا تھا اور شیخ محمد قاسم سندھی اور بعض دیگر علما نے اس اضافے کی صحت کا بھی دعویٰ کیا کہ یہ الفاظ صحیح ہیں۔ زیرِ ناف والے اضافے کے بارے میں علماء احناف کی تحقیقات: اس دعوے کی تردید خود علماء احناف ہی میں سے علامہ محمد حیات سندھی نے کی اور علامہ انور شاہ کشمیری نے ’’فیض الباری‘‘(2/ 267)پر ان کی تائید کی اور دعوائے صحت کا رد کیا۔علامہ بدر عالم نے ’’فیض الباری‘‘ کے حاشیے میں اور علامہ شوق نیموی نے ’’آثار السنن‘‘ کے حاشیے ’’التعلیق الحسن‘‘(ص:70)میں اس اضافے کو غیر محفوظ قرار دیا ہے۔انھوں نے اپنی تالیف ’’الدّرۃ الضرّۃ في وضع الیدین تحت السُّرّۃ‘‘ میں بھی اس اضافے کو معلول قرار دیا ہے،جیسا کہ حاشیہ فیض الباری سے پتا چلتا ہے۔غرض کہ ان اضافی الفاظ کو اور تو اور خود کئی علمائِ احناف نے بھی صحیح نہیں مانا۔ 1۔شیخ محمد حیات سندھی رحمہ اللہ: انھوں نے اپنے رسالے ’’فتح الغفور في وضع الأیدي علی الصُّدور‘‘ میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘(زیر ناف)کے الفاظ کا اضافہ محلِ نظر ہے،بلکہ یہ غلط ہیں اور سہواً حدیث میں درج ہو گئے ہیں،کیونکہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کی مراجعت اور مطالعہ کیا ہے اور اسی سند کے ساتھ اور انہی الفاظ پر مشتمل حدیث میں نے دیکھی ہے،لیکن اس میں ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔وہاں اس مرفوع حدیث کے بعد امام نخعی کا ایک اثر بھی مروی ہے اور اس کے الفاظ بھی اس مرفوع حدیث سے ملتے جلتے ہیں۔اس اثر کے آخر میں ’’فِيْ الـصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ کے الفاظ موجود ہیں۔ممکن ہے کاتب کی نظر ایک جگہ سے اکھڑی اور دوسری جگہ جا پڑی ہو اور اس نے اِس موقوف اثر کے الفاظ مرفوع حدیث میں لکھ دیے ہوں۔میری اس بات کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس اضافے پر تمام نسخے متفق نہیں ہیں اور کئی محدثین کرام نے اس حدیث کو روایت کیا ہے،لیکن ان میں سے کسی نے بھی زیر ناف کے الفاظ روایت نہیں کیے۔بلکہ میں نے سنا ہے اور نہ دیکھا ہے کہ کسی بھی محدث نے قاسم بن قطلوبغا کے سوا اِس حدیث کو اس اضافے کے ساتھ بیان کیا ہو۔[1]
Flag Counter