Maktaba Wahhabi

70 - 738
ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ابن حبان کا قول بھی نقل کیا ہے،بلکہ نو دیگر روایات و اقوال نقل کر کے انھیں شاذ و ضعیف کہا ہے۔[1] اسی موضوع(تحویل قبلہ)کی ایک دوسری حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،جس میں مذکور ہے: ((بَیْنَ النَّاسُ بِقُبَائَ فِیْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ اِذْ جَآئَ ہُمْ آتٍ فَقَالَ:اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَدْ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اللَّیْلَۃَ قُرْاٰنٌ،وَقَدْ اُمِرَ اَنْ یَّسْتَقْبِلَ الْکَعْبَۃَ فَاسْتَقْبِلُوْہَا،وَکَانَتْ وُجُوْہُہُمْ اِلَی الشَّامِ،فَاسْتَدَارُوْا اِلَی الْکَعْبَۃِ))[2] ’’مسجد قبا میں لوگ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی آنے والے نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آج رات قرآن نازل ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم مل گیا ہے،وہ اُسی وقت کعبہ شریف کی طرف متوجہ ہو گئے۔ان کے رُخ شام(بیت المقدس)کی طرف تھے،لیکن پھر انھوں نے گھوم کر کعبہ شریف کی طرف رُخ کر لیے۔‘‘ تحویلِ قبلہ سے متعلق ان حدیثوں میں سے پہلی حدیثِ براء رضی اللہ میں نمازِ عصر کے وقت لوگوں کو تحویلِ قبلہ کی خبر پہنچنے کا ذکر آیا ہے،جبکہ دوسری حدیث ِابن عمر رضی اللہ عنہما میں نمازِ فجر کے وقت انھیں خبر پہنچنے کا ذکر آیا ہے۔حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ان دونوں کے مابین کوئی تضاد و تعارض نہیں ہے،کیونکہ پہلی حدیث ِبراء رضی اللہ میں مدینے کے اندر ہی بنو حارثہ کو خبر پہنچنے کا ذکر ہے،جنھیں خبر پہنچانے والے حضرت عباد بن بشیر یا ابن نہیک رضی اللہ عنہما میں سے کوئی ایک تھا اور اہلِ قبا،جو بنو عمرو بن عوف تھے اور مدینے سے باہر تھے،انھیں فجر کے وقت یہ خبر پہنچی۔[3] پھر یہ بات تو صحیح بخاری ہی میں موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے جو پہلی نماز پڑھی وہ نمازِ عصر تھی،جیسا کہ ’’کتاب الإیمان،باب الصلاۃ من الإیمان‘‘ میں حضرت براء رضی اللہ ہی سے مروی ہے: ((وَاَنَّہٗ صَلّٰی اَوَّلَ صَلَاۃٍ صَلَّاہَا صَلَاۃَ الْعَصْرِ))[4]
Flag Counter