Maktaba Wahhabi

69 - 738
الْقَوْمُ حَتّٰی تَوَجَّہُوْا نَحْوَ الْکَعْبَۃِ))[1] ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف کی طرح منہ کر کے نماز پڑھی ہے،تو ان لوگوں نے اُسی وقت اپنا رُخ کعبہ شریف کی طرف پھیر لیا۔‘‘ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا ذکر آیا ہے،جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں کہا ہے کہ مسلمانوں نے ٹھیک سترہ ماہ اور تین دن تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی تھی،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ طیبہ میں قدومِ مبارک بارہ ربیع الاوّل بروز پیر تھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کا حکم پندرہ شعبان کو منگل کے دن فرمایا تھا۔لہٰذا یہ کل سترہ ماہ اور تین دن بنتے ہیں۔[2] جبکہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بخاری شریف میں وارد ہونے والے جملے سولہ یا سترہ ماہ کے بارے میں بڑی وضاحت کی ہے اور لکھا ہے کہ بخاری اور ترمذی میں زہیر کے طریق سے مروی احادیث میں یہ شک کا انداز پایا جاتا ہے کہ سولہ یا سترہ ماہ،جبکہ صحیح ابی عوانہ اور صحیح مسلم میں ابوالاحوص کی روایت میں اور نسائی میں سولہ ماہ شک کے بغیر وارد ہوا ہے۔مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی شک کے بغیر سولہ ماہ ہی مروی ہے۔مسند بزار اور معجم طبرانی میں عمرو بن عوف رضی اللہ سے،احمد میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور طبرانی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سترہ ماہ وارد ہوا ہے۔ان دونوں طرح کی روایات کے مابین مطابقت بہت آسان ہے کہ جن راویوں نے سولہ کہا ہے انھوں نے ہجرت کر کے مدینہ آنے والے ماہ اور تحویلِ قبلہ کے ماہ کو بس ایک مہینہ شمار کر کے زائد کو چھوڑ دیا ہے اور جس نے سترہ ماہ کہا ہے اس نے دونوں کو دو ماہ شمار کیا اور جس نے سولہ یا سترہ شک کے ساتھ بیان کیا ہے،وہ اس سلسلے میں متردد رہا،لہٰذا اس نے شک کا انداز اختیار کیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تحویل قبلہ کی تاریخ دو ہجری(2ھ)ماہِ رجب کی پندرہ تاریخ لکھی ہے اور یہی جمہور کا مسلک ہے۔مستدرک حاکم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ یہی مروی
Flag Counter