Maktaba Wahhabi

447 - 738
بلکہ صرف باندھنے ہی کا کہتے جیسا کہ قیام میں ہے۔[1] ان کی اس بات کا جواب شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اپنے رسالے میں دیا ہے جو تعمیری تنقید و تنقیح کا ایک بہترین نمونہ ہے کہ احترامِ باہمی میں سرِ مُو فرق نہیں آنے دیا۔[2] محققین علما کو یہی طرزِ عمل زیب دیتا ہے۔جبکہ یہ ایک تحقیقی مسئلہ ہے،جس میں اختلافِ رائے کو کسی غلط معنی پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔ اس مسئلے میں مختلف الرائے علما ایک دوسرے کے باہمی احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی اپنی تحقیق کا نچوڑ پیش کرتے ہیں،حتیٰ کہ کبار علماء سندھ میں سے دو افاضل،جو سگے بھائی بھی ہیں،اس مسئلے میں ان دونوں کی تحقیق الگ الگ ہے اور دونوں نے اپنے اپنے موقف کی تائید میں الگ الگ مستقل رسائل لکھے ہیں۔ہماری مراد سید بدیع الدین شاہ صاحب راشدی رحمہ اللہ پیر آف جھنڈا شریف اور ان کے بھائی علامہ سید محب اللہ شاہ صاحب راشدی رحمہ اللہ پیر آف جھنڈا شریف ہیں۔اس مسئلے میں اختلاف بھی جائز و ناجائز کا نہیں بلکہ محض اولیٰ و غیر اولیٰ یا افضل و غیر افضل کا ہے،کیونکہ صرف ایک امام شوکانی رحمہ اللہ کو چھوڑ کر جو قیام میں ہاتھ باندھنے کو واجب قرار دیتے ہیں،باقی جمہور علماء امت کے نزدیک تو ہاتھوں کا باندھنا قیام میں بھی واجب نہیں،چہ جائیکہ یہ قومے میں واجب ہو۔ اس موضوع کو ہم علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے ان الفاظ کے ساتھ ختم کر رہے ہیں،جن میں وہ فرماتے ہیں کہ ہاتھوں کو باندھنا سنت کے قبیل میں سے ہے،واجبات میں سے نہیں ہے۔اگر کوئی شخص قیام اور قومے میں ہاتھوں کو باندھے بغیر لٹکائے ہوئے ہی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہے،البتہ یہ ترکِ افضل ہے اور مسلمانوں میں سے کسی کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ ایسے امور کو اپنے مابین جھگڑا و نزاع اور تفرق کا ذریعہ بنائے،بلکہ سب پر واجب ہے کہ تمام ممکنہ کوششیں اس بات پر صرف کریں کہ برّ و تقویٰ کے امور میں تعاونِ باہمی بحال رہے،حق کو دلیل کے ساتھ واضح کیا جائے،ایک دوسرے کے خلاف حسد و بغض اور نفرت سے دلوں کو پاک و صاف رکھا جائے اور قبض و اِرسال یا ہاتھوں کو باندھنے اور چھوڑنے جیسے فرعی مسئلے کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے ترکِ تعلقات اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے اجتناب کا رویہ ہر گز نہ اپنایا جائے۔[3]
Flag Counter