Maktaba Wahhabi

446 - 738
ہاتھوں کا باندھنا آیا ہے۔وہ کھڑے ہونا قیام میں ہو یا قومے میں،دونوں اوقات میں کھڑے ہی ہوا جاتا ہے۔ لہٰذا قیام میں ہاتھ باندھنے والی احادیث ہی سے قومے میں بھی ہاتھ باندھنا اخذ کیا گیا ہے۔اپنے اس موقف کی تائید میں انھوں نے جو دلائل ذکر کیے ہیں،وہ ان کے ’’ثلاثُ رسائل في الصَّلَاۃ‘‘ میں شامل تیسرے رسالے ’’أَ یْنَ یَضَعُ الْمُصَلِّی یَدَیْہِ بَعْدَ الرَّفْعِ مِنَ الرُّکُوعِ‘‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں،جو درمیانے سائز کے آٹھ صفحات پر مشتمل رسالہ ہے،جسے دارالافتاء السعودیہ نے ’’مجموعۃ رسائل في الصّلاۃ‘‘(ص:134 تا 141)میں شائع کیا ہے۔یہ ’’ثلاث رسائل في الصّلٰوۃ‘‘ چھوٹے بڑے کئی سائزوں میں ملتے ہیں،حتیٰ کہ 1992ء میں ان کا اردو ترجمہ بھی ہمارے ایک فاضل دوست جناب ابو یوسف قاری محمد صدیق(نائب امیر جمعیت اہل حدیث الریاض)نے شائع کر دیا ہے۔[1] شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی تائید میں لکھے گئے ایک رسالے میں ایک دوسرے فاضل شیخ عبداللہ حمود التویجری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’اِنْ شَائَ اَرْسَلَ یَدَیْہِ بَعْدَ الرَّفْعِ مِنَ الرُّکُوعِ وَاِنْ شَائَ وَضَعَہُمَا‘‘[2] ’’رکوع کے بعد کوئی چاہے تو ہاتھ باندھ لے اور چاہے تو نیچے چھوڑ دے۔‘‘ ایک طرف موصوف کا یہ رسالہ ہے جس میں قومے کے دوران میں بھی ہاتھ باندھنے کو ترجیح دی گئی ہے،جبکہ دوسری طرف جمہور اہل علم کا تعامل یہ ہے کہ قومے میں ہاتھوں کو نیچے چھوڑا جائے۔ اسی مسلک کو راجح اور صحیح قرار دیتے ہوئے ایک دوسرے محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے قومے میں ہاتھوں کوباندھنے کو بدعت قرار دیا ہے،جیسا کہ ان کی کتاب ’’صفۃ صلاۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘(ص:80 حاشیہ)میں مذکور ہے۔موصوف نے شیخ التویجری کے نقل کردہ امام احمد رحمہ اللہ کے قول کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے یہ بات اپنے اجتہاد و رائے سے کہی ہے،نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کی کہ اسے سنت کہا ہو اور اجتہاد و رائے میں کبھی خطا بھی ہو جاتی ہے۔پھر اگر امام صاحب کے نزدیک قومے میں ہاتھ باندھنے کی سنت ہوتی تو وہ باندھنے اور نہ باندھنے میں اختیار نہ دیتے،
Flag Counter