Maktaba Wahhabi

280 - 738
اور عالم اسلام میں جس کے ارکان،جنہیں ’’فدائی‘‘ کہا جاتا تھا،تخریب کاری میں سرگرم تھے۔آج بھی ملنگ اور خود ساختہ پیر اپنے تعویذات علم الاعداد میں لکھتے ہیں اور گفتگو میں رمزیہ کلمات کہتے ہیں۔ملنگوں اور پیروں کا سلسلہ ایک ہی ہے اور برائے نام تصوف کی جڑیں بھی اسی باطنیہ سے جا ملتی ہیں۔ ’’شیعہ علما علم الاعداد کے خصوصی ماہر ہوتے ہیں اور وہ اس علم کی نسبت حضرت جعفرصادق کی طرف کرتے ہیں۔نہ صرف علم الاعداد کی نسبت بلکہ شیعہ کا تمام جدید مذہب حضرت جعفر صادق کی طرف نسبت ہی سے ’’جعفریہ‘‘ کہلاتا ہے۔تاریخ سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ حضرت جعفر کی اس علم میں شہرت معروف ہے۔چنانچہ اس علم الاعداد کو علم الجفر بھی کہتے ہیں اور علم الجمل بھی۔جمل کا معنی اونٹ بھی ہے اور ایک اونٹ شیعہ روایات کے مطابق قرآن سمیت غائب بھی ہے(ان کے مزعوم امام مہدی والا)۔ ’’قبل اس کے کہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کے اعداد پر توجہ دی جائے،سنّی علما کی ایک اور لا علمی کی کاوش سے بھی آگاہ ہوں کہ اکثر وہ کسی کتاب میں حاشیہ لکھ کر آخر میں ’’12 منہ‘‘ لکھتے ہیں،مگر اس ’’12منہ‘‘ کے مطلب سے واقف نہیں ہوتے اور مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی انہی شیعہ حضرات کی روش ہے۔’’12منہ‘‘ سے مراد اُن کے بارہ امام ہیں اور ’’منہ‘‘ کا معنی ہے ’’اس سے‘‘ یعنی جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ’’12‘‘ سے لکھا گیا ہے۔مطلب یہ کہ بارہ اماموں کے مذہب،بارہ اماموں کی تائید و نصرت سے لکھا گیا ہے۔ ’’یہاں ایک ادبی لطیفہ بھی ہے کہ اسد اللہ خان غالب شیعہ ذہن کا حامل تھا۔وہ میر مہدی کو مکتوب لکھتے ہوئے کہتا ہے: ’’زبان پر لا معبود الا اللّٰه ہے اور دل میں لا موجود الا اللّٰه۔‘‘ ’’یعنی زبان پر تو لَا مَعْبُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ ہے،مگر دل میں ہی کا وجود ہر ایک میں نظر آتا ہے۔یہ ہے باطنیہ کا کمال،دل اور زبان کا تفاوت،تحریر اور ارادے کے معاملات۔ ’’حروفِ ابجد کو آٹھ کلموں میں پابند کیا گیا ہے،یعنی عربی کے حروفِ تہجی کی ترتیب کے بجائے انھیں مختلف ترتیب سے آٹھ کلمے بنا دیا گیا ہے اور ’’تقیہ‘‘ سے کام لے کر اسے حضرت ادریس علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔جبکہ لفظ ہندسہ ظاہر کرتا ہے کہ اعداد کا حساب ہندسے سے نکلا ہے،تبھی اہلِ عرب علم حساب کو ہندسہ کہتے ہیں۔جبکہ ہند میں علم الاعداد کو رواج برہمن نے دیا جو
Flag Counter