Maktaba Wahhabi

228 - 738
باندھی اور اس کام کا بیڑا اٹھایا،انھیں بھی اس اضافے پر مشتمل یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں نہ ملی۔اگر یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں ہوتی تو وہ بھی ضرور اسے نقل کرتے،جبکہ وہ سب سے زیادہ وسیع المطالعہ ہیں۔[1] 5۔ امام سیوطی جن کا اپنے زمانے میں طوطی بولتا رہا،انھوں نے ’’وظائف الیوم واللیلۃ‘‘ میں سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث کا مفاد لکھا ہے اور ’’الجامع الکبیر‘‘ میں مصنف ابن ابی شیبہ سے مسند وائل رضی اللہ میں نو احادیث نقل کی ہیں،لیکن ان میں سے کسی میں بھی ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ والے الفاظ نہیں ہیں۔اگر یہ الفاظ مصنف ابن ابی شیبہ کی کسی روایت میں ہوتے تو وہ بھی ضرور نقل کرتے۔ 6۔ علامہ بدر الدین عینی حنفی نے بخاری شریف کی شرح ’’عمدۃ القاری‘‘ میں لکھا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے صحیح ابن خزیمہ والی حضرت وائل رضی اللہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے،جس میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر آیا ہے،جبکہ ہمارے علماء احناف غیر موثوقہ دلائل سے استدلال کرتے ہیں۔[2] اگرمصنف ابن ابی شیبہ میں یہ حدیث اس اضافے سمیت موجود ہوتی تو وہ بھی ضرور نقل کرتے،جبکہ ان کی تصانیف بھی ان کی نقول سے بھری پڑی ہیں۔[3] 7۔ ابن امیر الحاج جو وسعتِ مطالعہ و علم کے اعتبار سے اپنے استاذ ابن الہمام کے ہم پلہ ہیں،وہ ’’شرح المنیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سنت سے ثابت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں پر باندھا جائے اور حضرت وائل رضی اللہ کی سینے پر ہاتھ باندھنے کا پتا دینے والی حدیث کے سوا کوئی حدیث ثابت نہیں ہے جو ہاتھ باندھنے کی جگہ کا پتا دے۔[4] 8۔ ایسے ہی ’’البحر الرائق‘‘ میں ابنِ نجیم نے بھی کہا ہے۔اگر منصف ابن ابی شیبہ میں یہ حدیث اس اضافے کے ساتھ موجود ہوتی تو ابنِ امیر الحاج اسے ضرور نقل کرتے،جبکہ ان کی ’’شرح المنیۃ‘‘ مصنف ابن ابی شیبہ کی احادیث و آثار سے بھری پڑی ہے۔[5]
Flag Counter