Maktaba Wahhabi

147 - 738
اس حدیث سے تشہد کے وقت مقامِ نظر کا تعین ہو گیا،لیکن یہ صرف تشہد یا قعدے کے دوران ہی ہے،نماز کے باقی وقت میں نظر جاے سجدہ اور پاؤں کی جگہ کے درمیان رہنی چاہیے،جیسا کہ گذشتہ احادیث سے پتا چلتا ہے۔ان کی تائید سنن ابن ماجہ کی ایک حسن درجے کی حدیث سے بھی ہوتی ہے،جس میں اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ((کَانَ النَّاسُ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِذَا قَامَ الْمُصَلِّیْ یُصَلِّیْ لَمْ یَعْدُ بَصَرُ اَحَدِہِمْ مَوْضِعَ قَدَمَیْہِ،فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَکَانَ النَّاسُ اِذَا قَامَ اَحَدُہُمْ یُصَلِّیْ لَمْ یَعْدُ بَصَرُ اَحَدِہِمْ مَوْضِعَ جَبِیْنِہٖ،فَتُوُفِّیَ اَبُوْبَکْرٍ،فَکَانَ عُمَرُ،فَکَانَ النَّاسُ إِذَا قَامَ اَحَدُہُمْ یُصَلِّیْ لَمْ یَعْدُ بَصَرُ اَحَدِہِمْ مَوْضِعَ الْقِبْلَۃِ،فَکَانَ عُثْمَانُ وَکَانَتِ الْفِتْنَۃُ فَتَلَفَّتِ النَّاسُ یَمِیْنًا وَشِمَالًا))[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں نمازی نماز کے دوران میں اپنی نظریں پاؤں سے آگے نہیں لے جاتا تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور لوگ نماز میں سجدے کے لیے پیشانی رکھنے کی جگہ تک نظریں رکھتے تھے،پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ وفات پا گئے اور حضرت عمر رضی اللہ کا عہد ِ مبارک آ گیا تو مقامِ قبلہ سے نظریں نہیں ہٹاتے تھے۔پھر حضرت عثمان رضی اللہ کا دَور آیا تو فتنے نے سر اٹھایا اور لوگ نماز میں دائیں بائیں جھانکنے لگے۔‘‘ اس حدیث کی رو سے بھی نمازی کی نظروں کا مقام اس کے پاؤں سے لے کر مقامِ قبلہ یا جاے سجدہ تک ہے۔غرض سنن کبریٰ بیہقی اور تاریخ ابنِ عساکر میں دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بارے میں بھی یہی مروی ہے کہ نماز کے دوران میں نظریں جاے سجدہ پر رہنی چاہییں۔اس کے ایک راوی ’’صدقہ السمین‘‘ کی وجہ سے امام بیہقی نے کہا ہے کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے۔[2] حافظ ابن حجر نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ضعیف ہے۔[3] البتہ اس موضوع کی ایک حدیث صحیح بھی ہے جو بیہقی اور مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور ذکر کی جا چکی ہے۔[4] لہٰذا درست یہی ہے کہ نمازی کی نظریں جاے سجود تک ہی رہنی چاہییں۔
Flag Counter