Maktaba Wahhabi

93 - 738
معاملے میں دلیل اخذ کی جاتی ہے،انہی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص ہوائی جہاز میں نماز ادا کرنا چاہے تو اسے بھی اگر کھڑے ہونے کی گنجایش میسر ہو تو وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اگر اتنی گنجایش نہ ہو تو پھر بیٹھا بیٹھا ہی نماز ادا کر لے۔علاوہ ازیں رکوع و سجود کا طریقہ بھی گزر گیا ہے کہ اولاً تو زمین پر سجدہ کرنے کی طرح ہی سجدہ کرے،اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اشارے سے کام لے اور سجدے کے لیے رکوع کی نسبت سر کو زیادہ جھکائے۔اور اگر ریل گاڑی میں نماز کا وقت ہو جائے تو وہاں بھی جونسی صورت ممکن ہو،اسی پر عمل کیا جا سکتا ہے۔کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی گنجایش ہو تو ضرور کھڑے ہو کر ہی پڑھیں اور اگر ممکن نہ ہو تو سیٹ یا برتھ پر بیٹھ کر پڑھ لیں۔وہاں تو رکوع و سجود کو صحیح طور پر ادا کر لینے کا بھی امکان ہوتا ہے اور اشارے کی نوبت نہیں آتی۔بہرحال جیسے بھی ممکن ہو بروقت نماز پڑھ لیں۔بلاوجہ نماز کو اس کے وقت سے قضا کرنا جائز نہیں،البتہ سفر کے دوران میں قصر اور جمع بین الصلاتین کی جو رعایتیں دی گئی ہیں،انھیں اختیار کرنا نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے۔ غرض بحری جہاز میں نماز پڑھنے اور قیام کی رخصت کا ذکر تو حدیث شریف میں بھی آیا ہے،جبکہ کبارِ اہل علم میں سے علامہ محمد ناصر الدین البانی نے ’’مختصر صفۃ الصلاۃ‘‘ میں ہوائی جہاز میں نماز کا ذکر بھی اسی حدیث کے ضمن میں کیا ہے۔[1] معروف مصری فاضل سید سابق نے ’’فقہ السنۃ‘‘ میں ہوائی جہاز کے ساتھ ہی ریل گاڑی میں نماز کا ذکر بھی کیا ہے۔[2] علامہ جزائری نے ’’الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘(1/ 206)میں اور انھی کی طرح ہی خطیبِ حرم مکی شیخ عبداللہ عبدالغنی الخیاط نے اپنے کتابچے ’’تحفۃ المسافر‘‘ میں بحری جہاز،ہوائی جہاز اور ریل گاڑی کو یکجا ہی ذکر کیا ہے۔[3] ہوائی جہاز اور ریل گاڑی نَو ایجاد سواری پر نماز کے سلسلے میں ہمارے شیخ مولانا حافظ ثناء اللہ صاحب مدنی کا فتویٰ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور میں شائع ہوا تھا،جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’نفلی نماز سواری پر ہو جاتی ہے،لیکن فرض نماز اتر کر پڑھنی چاہیے۔حدیث میں ہے:
Flag Counter