Maktaba Wahhabi

722 - 738
علم سفر کے دوران میں سنّتیں پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ان سنّتوں سے مراد صرف نماز کے پہلے اور بعد والی موکدہ سنّتیں ہیں۔البتہ عام نفلی نماز اس سے الگ ہے۔خود ابن عمر رضی اللہ بھی عام نوافل پڑھا کرتے تھے۔یہ عام نوافل تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہیں،جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ہے: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یُسَبِّحُ عَلَی ظَہْرِ رَاحِلَتِہٖ حَیْثُ کَانَ وَجْہُہٗ یُوْمِیُٔ بِرَأْسِہٖ)) ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر نوافل پڑھتے تھے،سواری چاہے جس رُخ پر بھی جا رہی ہوتی،اور اپنے سر اَقدس کے اشارے سے(رکوع و سجود)کرتے تھے۔‘‘ اسی حدیث کے آخر میں مذکور ہے کہ خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی عمل تھا۔[1] صحیح بخاری و مسلم شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دورانِ سفر وتر پڑھنا بھی ثابت ہے۔[2] اسی طرح صحیح بخاری شریف میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دورانِ سفر فجر کی سنّتیں پڑھنا بھی ثابت ہے۔[3] صحیح بخاری شریف ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز ضحیٰ یا اشراق یعنی چاشت کی آٹھ رکعتیں پڑھنا بھی ثابت ہے۔حضرت اُمّ ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں غسل فرمایا اور آٹھ رکعیتں پڑھیں،جو انتہائی تخفیف سے ادا فرمائیں،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود پوری طرح ادا کر رہے تھے۔[4] جبکہ سنن ابو داود،ترمذی،بیہقی اور مسند احمد کی بعض احادیث سے دورانِ سفر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں،مغرب کے بعد دو رکعتیں اور عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔موطا امام مالک اور مسند احمد کی بعض روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران سفر تہجد ادا کرنے کا بھی ذکر ہے۔[5] ان مختلف قسم کی احادیث کے مجموعی مفاد سے شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ جمع و تطبیق ذکر کی ہے کہ دورانِ سفر چار قسم کے نوافل و سنن کی اجازت ہے۔پہلی وہ سنّتیں جو فرضوں کے بعد والی موکدہ سنّتیں ہیں،دوسری وہ جن کا ایک وقت مخصوص ہوتا ہے،جیسے نمازِ ضحی،تیسری صلاۃ اللیل یعنی
Flag Counter