Maktaba Wahhabi

720 - 738
سے ایک نمونہ قائم فرما دیا ہے تو پھر وہاں سنّتوں اور نوافل کی کیا ضرورت ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ کسی صحیح حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں نفل پڑھے ہوں،سوائے فجر کی سنّتوں اور نمازِ وتر کے،یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر و حضر ہر موقع پر پڑھا کرتے تھے۔[1] چنانچہ صحیح بخاری و مسلم،ابو داود،نسائی،ترمذی،ابن ماجہ اور دیگر کتبِ حدیث کے حوالے سے متعدد احادیث گزری ہیں،جن میں مذکور ہے کہ سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو دو رکعتیں ہی پڑھا کرتے تھے اور مغرب کی تین۔صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((صَحِبْتُ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَلَمْ اَرَہُ یُسَبِّحُ فِی السَّفَرِ،وَقَالَ اللّٰہُ جَلَّ ذِکْرُہُ:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ))[2] ’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ(سفر میں)رہا ہوں۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں(نمازوں کی)سنّتیں اور نوافل پڑھتے نہیں دیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے(سورۃ الاحزاب آیت:21 میں)فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ مسلم شریف میں تو بڑی وضاحت ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے پوتے حضرت حفص بن عاصم بن عمر فرماتے ہیں کہ میں(اپنے چچا)عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مصاحبت میں سفرِ مکہ پر نکلا تو انھوں نے ہمیں ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں،پھر سب اُن کے مقامِ قیام(خیمہ وغیرہ)میں چلے گئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے۔پھر ان کا دھیان اس جگہ کی طرف گیا،جہاں نماز پڑھی تھی تو دیکھا کہ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟میں نے جواب دیا کہ سنّتیں پڑھ رہے ہیں۔اس پر انھوں نے فرمایا: ((لَوْ کُنْتُ مُسَبِّحًا اَتْمَمْتُ صَلَاتِیْ یَا ابْنَ اَخِیْ،اِنِّیْ صَحِبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِی السَّفَرِ فَلَمْ یَزِدْ عَلٰی رَکْعَتَیْنِ حَتّٰی قَبَضَہُ اللّٰہُ،وَصَحِبْتُ اَبَا بَکْرٍ فَلَمْ یَزِدْ عَلٰی رَکْعَتَیْنِ حَتّٰی قَبَضَہُ اللّٰہُ،وَصَحِبْتُ عُمَرَ فَلَمْ یَزِدْ عَلٰی
Flag Counter