Maktaba Wahhabi

72 - 738
باہر کسی بھی دوسرے ملک میں ہو،تو اس کے لیے عین کعبہ شریف کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں،بلکہ دُور دراز کے مسلمانوں کے لیے صرف سمتِ کعبہ یا قبلہ رو،کعبہ کی جہت کا ہونا ہی کافی ہے۔امام بغوی رحمہ اللہ نے شرح السنۃمیں ایک تواس ارشادِ باری تعالیٰ سے استدلال کیا ہے: ﴿وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ﴾[البقرۃ:144] ’’اور جہاں کہیں بھی تم ہو،اُسی(مسجد حرام)کی طرف منہ(کر کے نماز پڑھا)کرو۔‘‘ علاوہ ازیں اس پر بعض احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی استدلال کیا جاتا ہے،جن میں سے ایک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے،جس میں ارشادِ نبوی ہے: ((مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَۃٌ))[1]’’مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو متعدد اسانید سے مروی ہونے کی بنا پر محدثینِ کرام نے صحیح قرار دیا ہے۔[2] اس حدیث کی شاہد و موید وہ حدیث بھی ہے جو سنن دارقطنی و بیہقی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔غرض ایسی ہی دیگر اسانید کی بنا پر یہ حدیث صحیح قرار دی گئی ہے۔[3] امام بغوی رحمہ اللہ نے ’’شرح السُّنّۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ((مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَۃٌ))والی حدیث کئی صحابہ مثلاً حضرت عمر فاروق،حضرت علی بن ابی طالب،حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم(جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)سے مروی ہے۔[4] یہ بات کہ مشرق و مغرب کے مابین قبلہ ہے،یہ اُس وقت کے مخاطبین صحابہ اہلِ مدینہ کے تعلق سے ہے کہ اس کا محل وقوع ہی ایسا ہے،ہمارے بلادِ شرق کے بارے میں کہا جائے گا کہ شمال و جنوب کے مابین قبلہ ہے۔امام ثوری اور امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا استقبالِ قبلہ کے سلسلہ میں یہی مسلک ہے،البتہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ایسی حالت میں بھی جہتِ قبلہ نہیں،بلکہ ہر ممکن کوشش کرکے ہر حال میں عین قبلہ رُخ ہونا ہی ضروری ہے۔امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے اس پر بخاری شریف کی ایک حدیث سے استدلال کیا ہے۔[5]
Flag Counter