Maktaba Wahhabi

706 - 738
اعادہ کرلے اور قصر پڑھے۔لیکن وجوبِ قصر کے وہ بھی قائل نہیں،جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عائشہ و عثمان اور ایک روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہم اور ائمہ مجتہدین میں سے امام مالک،احمد اور شافعی رحمہم اللہ کے نزدیک قصر واجب نہیں بلکہ محض رخصت ہے۔امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک اکثر اہل علم کی بھی یہی رائے ہے۔ان کا استدلال ایک تو سورۃ النساء کی آیت(101)سے ہے: ﴿وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلَاۃِ ’’اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی حرج نہیں کہ تم نماز میں قصر کر لو۔‘‘ ان کے نزدیک حرج وجوب پر نہیں بلکہ رخصت پر دلالت کرتے ہیں۔ ایسے ہی صحیح مسلم والی حدیث سے بھی ان کا استدلال ہے: ((صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِہَا عَلَیْکُمْ))[1] یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’صدقہ‘‘ قرار دیا ہے۔صدقے کے ظاہر سے قصر کا رخصت ہونا ہی معلوم ہوتا ہے نہ کہ واجب ہونا۔ایسی ہی کئی دوسری دلیلیں بھی ہیں۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے طرفین کے دلائل ذکر کرنے کے بعد وجوب کے راجح ہونے کے میلان کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ قصر ہی افضل ہے،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ قصر کیا کرتے تھے اور یہ بات بعید از قیاس ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر افضل کو ترک کر کے مفضول پر عمل کرتے رہے ہوں۔[2] جن روایات میں قصر کے بجائے تکمیل کا ذکر ہے،وہ ضعیف ہیں۔[3] یہ ایک خالص علمی نوعیت کی بحث ہے اور طرفین کے پاس دلائل بھی موجود ہیں۔اب اسے واجب سمجھیں یا رخصت قرار دیں،کچھ بھی ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفر میں ہمیشہ قصر پڑھا کرتے تھے،لہٰذا ہمیں بھی قصر ہی پڑھنی چاہیے کہ یہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے قصر نہیں کرتا تو اس کی نمازبھی درست ہے اور اعادے کی ضرورت نہیں۔[4]
Flag Counter