Maktaba Wahhabi

60 - 738
طرح وہ نماز پڑھتے ہیں یا پڑھتے تھے،ویسے ہی ہم بھی مشینی انداز کے ساتھ نشست و برخاست پر مبنی چند حرکات و سکنات اور کچھ قراء ت و تلاوت اور ذکر و دعا کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اقامت صلات یا اداے نماز کا حق ادا کر دیا ہے۔ اب آپ خود ہی فرمائیں کہ اس طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو کیا نام دیا جائے:نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا نمازِ آبائی؟شاید دوسرا نام ہی ٹھیک بیٹھتا ہے،کیونکہ ہم اپنے آبائی طریقۂ نماز کو اختیار کرتے ہیں اور نماز کے بارے میں ارشاداتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کر کے علیٰ وجہ البصیرت مسنونِ نماز نبوی(صلی اللہ علیہ وسلم)کا اہتمام خاطر ہی میں نہیں لاتے۔ہوتا یہ ہے کہ اپنی ہی مرضی سے سنتوں کا خیال رکھے بغیر جھٹ پٹ وضو کیا،بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اعضاے وضو کو گیلا کیا،کچھ اپنی طرف سے اضافے کیے جو ضعیف و ناقابلِ استدلال روایات کی بنیاد پر وضو کا حصہ بنا لیے گئے ہیں،پھر اللہ اکبر کہا،فر فر ثنا،الحمد للہ اور کتر کتر{قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾پڑھا اور رکوع میں چلے گئے۔رکوع سے نجات پائی،پھر سر کو تھوڑا سا اوپر کی جانب جھٹکا دیا اور سجدے میں گر گئے۔قومے کا پتا ہی نہیں کہ وہ بھی کوئی عمل ہے۔پھر اس بے قرار سجدے سے سر کو تھوڑا سا اوپر کی جانب جھٹکا دیا اور کوشش کی کہ اوپر کو سر اٹھانے یا نیچے دوبارہ گرانے کے دوران ہی کسی نہ کسی طرح دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں کو چھو جائیں اور دوسرے سجدے کو جا لیا۔دو سجدوں کے درمیان والے جلسے کا پتا ہی نہیں کہ وہ بھی کچھ ہے۔اور اسی طرح دوسرے سجدے کے بارِ گراں سے بھی نجات حاصل کر لی۔پھر دوسری رکعت کو بھی جا لیا۔جلسۂ استراحت سے ہم متعارف ہی نہیں۔آپ ہی کہیے کہ کیا کثیر مسلمانوں کی نماز واقعی ایسی نہیں ہوتی کہ ساری نماز بے چین،رکوع و سجود غیر مطمئن اور قومہ و جلسہ مضطرب،بلکہ بے نشان ہوتا ہے؟ بے سرور نماز کا یہ انداز عوام الناس ہی پر بس نہیں،بلکہ ہمارے برصغیر کے کتنے ہی ائمہ مساجد ایسے ہیں کہ دورانِ امامت بھی ان کا قومہ و جلسہ مفقود اور رکوع و سجود بے حضور سے ہوتے ہیں۔خصوصاً نمازِ تراویح کی دوڑ میں تو لوگ ان کا پیچھا کرنے سے عاجز آجاتے ہیں۔رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ ہی نہیں بلکہ ہم نے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری نماز کا حسین سراپا ہی بگاڑ کر رکھا ہوا ہے۔ایسے ہی دل خراش مناظر کو دیکھ دیکھ کر علامہ اقبال بے ساختہ کہہ اٹھے تھے: ؎
Flag Counter